گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرکے فلسطین کی پیٹھ میں خنجر گھونپا گیا

246

شہبازرشید

پوری دنیاکومعلوم ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جو اپنا وجود فلسطینیوں کے مسلسل خون چوسنے کے سبب قائم کیے ہوئے ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ہر روز فلسطینیوں کے خون کی ہولی کا تہوار منایا جاتا ہے۔ اسرائیل کی تاریخ ظلم و جارحیت سے عبارت ہے۔ چند مثالوں سے اسے واضح کیا جا سکتا ہے: کنگ ڈیوڈ قتل عام جس میں92 لوگ قتل کیے گئے۔ ڈیرہ یاسین قتل عام جس میں 254 مفلس دیہاتیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ قبیا قتل عام جس میں 96لوگ قتل کردیے گئے۔ کفر قاسم قتل عام ،خان یونس قتل عام، مسجد ابراہیم قتل عام، سابرہ و شاتیلا قتل عام جس میں 3000فلسطینیوں کو لبنان کے مہاجر کیمپ میں قتل کیا گیا اور اب تک فلسطین میں ایک بہیمانہ نسل کشی جاری ہے۔اس پورے تناظر میں عرب ممالک کا اسرائیل کے ساتھ کسی بھی سطح پر کسی بھی نوع کی بات چیت کرنا انہیں انصاف کی عدالت میں ایک مجرم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے۔ اسرائیل سے بات چیت کرنا اسرائیل کو ایک ریاست ماننے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ عرب ممالک کے ساتھ مسلم دنیا کے کسی بھی ملک کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی پیش رفت بذات خود ایک جرم ہے کیونکہ اسرائیل اپنے مکر و فریب اور مغرب کی منافقت سے امت مسلمہ کے سینے میں بصورت خنجر گھونپ دیا گیا ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ 1948ء کے بعد کئی مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ معاملات اگرچہ مسئلہ فلسطین ہی کے حوالے سے پرامن طریقے کے تحت حل کیے جانے پر بات چیت کی لیکن کس قانون کے تحت؟کس دستور کے تحت یا کن اخلاقی اقدار کے تحت یہ سرگرمیاں انجام دی گئیں یا اب دی جارہی ہیں؟۔ اسرائیل کو امت مسلمہ خصوصاً عرب ممالک نے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرنا تھا بلکہ اس خنجر کو طاقت کے ذریعے نکال باہر کرکے رکھنا تھا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ دور جدید کی امت مسلمہ میں نااہل حکمرانوں نے معمولی اور محض ظاہری مفادات کے تحت دشمن سے ہاتھ ملا لیا ہے۔
1979ء میں مصر کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ قائم کیا گیا تھا، جس کے بعد اُردن نے ایسا ہی معاہدہ 1994ء میں کیا۔ حال ہی میں اب متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ابراہیم نامی سمجھوتا طے کر کے ناجائز ریاست کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔ اس معاہدے کو فلسطینیوں نے پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ایک سرطان کی طرح پھیل رہا ہے۔ صہیونی ریاست نے عربوں کی آپسی نااتفاقی کو جس طرح سے اپنا ناپاک اور ناجائز وجود مستحکم بنانے کے لیے استعمال کیا ہے، تاریخ کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
مصر اور اردن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے متحدہ عرب امارات ، اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرکے تیسرا اور بحرین چوتھا عرب ملک بن گیا ہے جب کہ اسرائیل اور امریکا کی جانب سے مسلسل اشارے دیے جا رہے ہیں کہ مزید عرب ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہیں، جو بہت جلد صہیونی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرکے فلسطین کو تنہا کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کا اسرائیل کے اتنا قریب جانا، پورے عالم اسلام کے لیے خطرے کی علامت ہے، جس کے بھیانک نتائج برآمد ہونے کا خدشہ ہے، کیوں کہ اسرائیل اور امریکا مل کر یہ گیم گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے کھیل رہے ہیں۔