عرب کے اسرائیل سے تعلقات، کیا پاکستان بھی تعلقات قائم کرے؟

380

 خبر آئی ہے کہ متحدہ عرب امارات کے بعد اب بحرین نے بھی اسرائیل سے پر امن تعلقات کے لیے معاہدہ کر لیا ہے۔ اب ایسا لگ رہاہے کہ خلیج کے باقی ممالک بھی آہستہ آہستہ یہ کام کریں گے اور ٹرمپ اپنے اس کارنامے کو بین الاقوامی کامیابی کا جواز بنا کر امریکی صدارتی الیکشن میں اُترے گا۔ ٹرمپ کی پوٹلی میں کارناموں کی کمی نہیں ہے، بظاہر امریکی جنگوں کو محدود کرنا اور پھر فوجیوں کو گھر واپس لانا ، اس کے بڑے کارناموں میں سے ایک گن سکتے ہیں۔ اس نے امریکی معاشرے کے لیے بھی کام تو کیا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا اس کے خلاف ہے لیکن وہ ان سے بھی لڑائی لینے سے نہیں گھبرا رہا ہے۔
جب عرب ممالک نے اسرائیل سے تعلقات استوار کرنا شروع کیے تو یہاں پاکستان میں دو طرح کا ردعمل آ رہا تھا، ایک وہ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور ایک وہ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا ہی قومی مفاد میں ہے۔ اس پر معروف کالم نگاروں نے کالموں میں اپنی آراء دے کر اس کو موضوع بحث بنا دیا۔ اس ضمن میں سب سے بیلنس رائے معروف صحافی اور تجزیہ نگار رضوان رضی صاحب کی ہے۔ رضی صاحب سوشل میڈیا پر رضی دادا کے نام سے معروف ہیں اور ان کے وی لاگ سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اسرائیل کو عرب خطے میں سب سے پہلے مصر نے تسلیم کیا تھا۔ انوار سادات کو اپنے اقتدار کے دوام کے لیے امریکی آشیر باد چاہیے تھی اور آقا کا حکم تھا کہ وہ اُس کے لے پالک کی غلامی کو قبول کرے۔ مصر نے اس کو قبول کیا۔ اس کے بعد اردن نے بھی اسرائیل کو تسلیم کیا۔ ترکی اس خطے کا اہم ملک ہے ،تاہم ترکی نے کمال اتاترک کے زمانے ہی میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ اب متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھی اسرائیل سے تعلقات استوار کر لیے ہیں۔
رضی صاحب بتاتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ قطر کے دورے پر تھے تو دوحا میں اُن کو ایک عمارت دکھائی گئی کہ یہ اسرائیل کا سفارتخانہ ہے۔ انہوں نے حیرانگی سے کہا کہ اس پر تو کوئی پرچم بھی نہیں ہے تو یہ کیا ہے، اُنہوں نے کہا بھئی ایسا ہی ہے۔ دبئی ، عجمان میں بھی اسرائیلی دھڑلے سے پھرتے ہیں۔ رضی صاحب کہتے ہیں کہ میری خود اسرائیلیوں سے دبئی ائرپورٹ پر ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ یعنی بیک ڈور ڈپلومیسی تو کئی سال سے جاری تھی اور اب اس کا محض اعلان ہی ہوا ہے۔ خود خاکسار دفتری امور کے لیے گزشتہ سال دبئی میں 8 دنوں کے لیے مقیم تھا تو وہاں میں نے دیکھا کہ ایک لڑکے کے ہاتھ میں کی چین ہے جس پر اسرائیلی پرچم بنا ہوا ہے۔ میں نے اس استفسار کیا کہ تم اسرائیلی ہو تو یہاں کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا کہ کاروباری امور کے لیے 3 ہفتے دبئی میں قیام ہے، یہاں سے براستہ دوحا واپس اسرائیل جائوں گا۔ واللہ اعلم۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو تو میں نے کہا کہ میں پاکستانی ہوں تو اس نے ایک لمحے میں مجھے رات کے کھانے کی دعوت دے ڈالی تھی کہ ہم دونوں ہی ایک ہی ہوٹل میں مقیم تھے۔
عمومی طور پر بین الاقوامی معاملات پر عرب دنیا کی ایک ہی لائن ہوتی ہے۔اس لائن کو سعودی عرب ڈیفائن کرتا ہے۔ یہ لائن قطر نے ایران کے معاملے پر کراس کی تھی۔ یہ الگ سوال ہے کہ پھر ترکی کے علاوہ کون سا ملک تھا جس نے اشیائے ضروریہ قطر کو فوری فراہم کی تھیں؟اسرائیل کے معاملہ پر بھی عرب ممالک کی اپنے اپنے مفاد میں الگ الگ خارجہ پالیسی ہے۔ فی الوقت کے سعودی الفاظ کا پوسٹ مارٹم کریں توخطرہ ہے کہ وہ کسی ڈیل کے نتیجے میں اسرائیل سے تعلقات بنا لے گا، اس پر اگلی نشست میں بات کریں گے۔
فی الحال دبئی کا اسرائیل کو تسلیم کرنااُس کی معاشی مجبوری بھی ہے۔ کورونا سے پہلے ہی دبئی کی معیشت کا جلوس نکلنا شروع ہو گیا تھا۔ اگر یاد ہو تو 2008ء کے عالمی معاشی بحران میں دبئی کو اپنی عمارتیں اپنی کزن ریاستوں کو بیچ کر دبئی کی معیشت کو بحال کرنا پڑا تھا۔ اب دبئی کی ائر لائنز کو بلین آف ڈالرز کا نقصان بھی ہو چکا ہے۔ سیاحتی مقامات پر رش انتہائی کم ہو چکا ہے۔ تیل پر انحصار دبئی کا ویسے بھی نہیں رہا ہے۔ اب گہرائی میں دیکھیں تو دبئی کی اسرائیل سے علی الاعلان تعلقات اس کی مجبوری تھی۔ اس طرح ابو ظبی کی معاشی مجبوریاں ہیں جبکہ بقیہ 5ریاستیں وہی کرتی ہیں جو یہ دو بڑی ریاستیں کہتی ہیں۔ یہ خبر بھی دیتے چلیں کہ یواے ای کے ایران سے تعلقات کشیدہ نہیں جیسا کہ سعودیہ کے ہیں، ان کو بھی معلوم ہے کہ ایران سے آیا ہوا ایک میزائل ان کی کسی ایک عمارت پر لگتا ہے تو دنیا کے لیے یہ بریکنگ نیوز ہوگی اور ہمارے لیے دی نیوز آف ڈیتھ ہو سکتی ہے۔ یہاں پر کوئی سیاح قدم نہیں رکھے گا، دبئی کی عمارتوں میں کبوتر راج کریں گے اور جو لوگ یہاں رہائش پزیر ہیں وہ یہاں سے نکل جائیں گے اور گیٹ وے ٹو ایشیا پھر کلوز گیٹ ٹو ایشیا بن جائے گا۔سعودیہ نے تو ایران کا میزائل حملہ بھگت لیا تھا، یو اے ای یسا کرنے سے قاصر ہوگا۔ کبھی یہ ریسرچ خود کیجیے گا کہ کون سے ممالک کراچی کی بندرگارہ کو چلتا نہیں دیکھ سکتے ہیں، کون ہے جو گوادر کی وجہ سے پریشان ہے ، کون بلوچستان کے شرپسندوں کو پناہ اور پیسہ دیتا ہے اور کون ہے جو کروڑوں ڈالرز سالانہ ان شہروں کو غیر مستحکم رکھنے کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ان کے جوابات آپ کو خود تلاش کیجیے گا۔ معاشی مجبوریاں انسانوں اور ممالک سے کیا نہیں کروا دیتی ہیں۔
پاکستان اب کیا کرے؟ کیوں کہ کالم نگار تو یہ بحث چھیڑ چکے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ سب سے پہلے بانیان پاکستان کا بیان دیکھ لیں۔ انہو ں نے واضح پالیسی رکھی تھی کہ پاکستان صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہے گا۔ اب یہ اصول آج کی تاریخ میں کتنا لاگوہے، اس کا جواب موجودہ حکمران دے سکتے ہیں لیکن بانیان پاکستان نے واضح طور پر اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی تھی اور قائد اعظم نے اسرائیل کو امریکا کی ناجائز اولاد تک کہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 70سال میں اس ملک کی اشرافیہ کی شدید ترین خواہشات کے باوجود بھی ایسا ہو نہیں سکا۔ مشرف دور میں بھی اسرئیل کو تسلیم کرنے کی مہم چلی تھی، وہ بھی دم توڑ گئی تھی۔
فلسطین کے لیے مذہبی اور اخلاقی موقف کو کچھ دیر کے لیے سائڈ پر رکھ کر یہ دیکھ لیجیے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہمیں کیا فائدہ ہے دنیاوی اور مالی فائدہ بھی کچھ نہیں ہے۔ کیسے؟ پاکستان میں اسرائیلی ملٹی نیشنل کمپنیاں پہلے ہی براستہ امریکا کام تو کر رہی ہیں۔ ان کی یہاں پر اچھی خاصی مارکیٹ ہے ، لہٰذا تجارتی طور پر جو سرمایہ کاری کرنی تھی، وہ پہلے ہی کر چکے ہیں۔ کیا اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں وہ یہ سرمایہ کاری نکال دیں گے؟ ہرگز نہیں، وہ اپنی کروڑوں ڈالرز کی مارکیٹ کو اس ایک ایشو پر اس لیے تباہ نہیں کریں گے کیونکہ پھر ایک تو وہ کھل کر سامنے آ جائیں گے ، ایسی صورت میں پاکستانی عوام ان کا بائیکاٹ کریں گے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ساتھ ہی مارکیٹ میں چین اور پاکستان خود ہی متبادل اشیا متعارف کروا دیں گے جس سے اسرائیل کی پاکستان میں موجود مارکیٹ ہی دم توڑ جائے گی۔ لہٰذا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاشی فائدہ کوئی نہیں ہے، اس کو جو سرمایہ کاری کرنی تھی، وہ پہلے سے ہی کر چکا ہے۔ اسرائیل کے غیر اعلانیہ اور اعلانیہ بھی ایسے کوئی پلان نہیں ہیں جن سے کہ پاکستان کو معاشی فائدہ حاصل ہو سکے۔
اب کیا تزویراتی یا سفارتی فائدہ ہے؟ نہیں، یہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان بھی آف دی ریکارڈ اور بیک ڈور ڈپلومیسی رکھتا ہے۔ یہ ڈپلومیسی فرینڈز آف پاکستان کرتے ہیں۔ بالخصوص جس وقت بھارت اکڑتا ہے تو پاکستان کا پیغام تل ابیب پہنچ جاتا ہے اور پھر 27 فروری جیسے واقعے کے بعد بھی بھارت صرف بڑھکیں مار سکتا ہے ، کر کچھ نہیں سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ چین، امریکا اور ترکی کے ہوتے ہوئے پاکستان کو اسرائیل سے ڈائریکٹ کمیونیکشن کی کوئی ضرورت ویسے بھی نہیں ہے۔
دنیا میں کواڈ 4 نامی ایک نیا بلاک بن رہا ہے ،جس میں جاپان، آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں اور اس کی سربراہی امریکا کر رہاہے، اس کا مقصد چین کو معاشی طور پر قابو کر کے بھارت کو اس خطے کا ٹھیکیدار بنانا ہے تاکہ بھارت اس خطے میں ان کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ ایسے میں پاکستان نے بھی واضح لائن لی ہوئی ہے کہ وہ صرف امریکا پر انحصار نہیں کرے گا بلکہ خطے کی دیگر طاقتوں کے ساتھ بھی تعلقات رکھے گا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ امریکا سے بگاڑ لے گا بلکہ وہ تما م طاقتوں کے ساتھ بیلنس آف پاور کے ساتھ تعلقات بنائے گا۔ یہی درست طریقہ ہے۔
مذکورہ بالا بیان کے مطابق یہ تو واضح ہوگیا کہ پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تاہم اسرائیل سے تعلقات نہ رکھنے کی صور ت میں اخلاقی فائدہ ضرورہے۔ میں نے خود پاکستانی پاسپورٹ کی عبارت کی وجہ سے اہل فلسطین کو پاکستان کا شکر گزار دیکھا ہے۔ میری شارجہ میں فلسطینیوں سے ملاقاتیں رہی ہیں اور وہ پاکستانی ہونے کی وجہ سے مجھے سر پر بٹھاتے رہے ہیں۔ میری سوشل میڈیا پر فلسطینیوں سے دوستی بھی ہے اور وہ بھی پاکستانی ہونے کی وجہ سے مجھے بہت عزت دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا پاکستان کے فلسطین کے لیے اخلاقی اسٹینڈ کی وجہ سے ہے۔ اخلاقی میدان وہ ہے جو اگر ایک مرتبہ ہاتھ سے نکل جائے تو پھر دوبارہ نہیں ملتا ہے۔ کیا ہم نے 70 سال اسرائیل سے تعلقات کے بغیر سروائیو نہیں کیا؟ کیا ہم اگلے 70 سال سروائیو نہیں کر سکتے ہیں؟ تھوڑا سا اپنا حساب کتاب ٹھیک کرنا ہے، مالی فوائد ہم خود بھی سمیٹ سکتے ہیں۔
اب بتائیں، لمحہ موجود میں اسرائیل سے تعلقات رکھنے کا کوئی فائدہ ہے؟