خورشید ندیم اور مغرب کی غلامی

1511

 اقبال نے غلامی کے بارے میں ایک بنیادی بات کہہ رکھی ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اقبال کہہ رہے ہیں کہ لوگ غلامی کو صرف سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ غلامی صرف سیاسی چیز نہیں ہے بلکہ یہ اتنا ہولناک تجربہ ہے کہ اس کے زیر اثر افراد کیا قوموں کا ضمیر بدل جاتا ہے۔ ان کو اپنا خوب بھی ناخوب دکھائی دینے لگتا ہے اور آقا کی بدصورتی بھی خوبصورتی دکھائی دینے لگتی ہے۔ غلامی انسان کے ساتھ کیا کرتی ہے، برصغیر میں اس کی سب سے بڑی مثال سرسید ہیں۔ غلامی کے تجربے سے پہلے سر سید آپ کی اور میری طرح ایک عام مسلمان تھے مگر غلامی کو قبول کرنے اور اسے سراہنے کے بعد سرسید کا یہ حال ہوا کہ انہوں نے قرآن کے تمام معجزات کا انکار کردیا یعنی قرآن کا انکار کردیا۔ انہوں نے علم حدیث کو ناقابل اعتبار قرار دے دیا۔ فقہ کی پوری روایت کو مسترد کردیا۔ تیرہ سو سال کے علم تفسیر کو ناقابل اعتبار قرار دے دیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ ’’اجماع‘‘ کا تصور ان کے لیے قابل قبول نہیں۔ سرسید کو انگریزوں کی غلامی اتنی پسند آئی کہ انہوں نے اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا اور دعا کی کہ یہ غلامی کبھی ختم نہ ہو۔ بعض لوگ سرسید کو ’’فرد‘‘ سمجھتے ہیں۔ مگر سرسید ایک ذہنیت کا نام ہیں۔ ایک تناظر کا نام ہیں۔ چناںچہ سرسید مرگئے مگر ان کی ذہنیت اور تناظر آج بھی زندہ ہے۔ اسی لیے مولانا مودودی نے فرمایا ہے کہ برصغیر میں جتنی گمراہیاں پھیلی ہیں اس کا سرچشمہ سرسید کی ذات ہے۔ آپ کو مغرب کی غلامی سے پیدا ہونے والی نفسیات کو ملاحظہ کرنا ہو تو جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم کے حالیہ کالم کا یہ طویل اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
محمد مرسی کا جواں سال بیٹا عبداللہ طبعی موت نہیں مرا۔ اسے قتل کیا گیا۔
مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کا جسم قید میں تھا کہ ان کی روح آزاد ہوگئی۔ زنداں سے پرواز کر گئی۔ وہ بھی ایک قتل تھا۔ ایک سال پہلے، چار ستمبر 2019ء کو، جب پچیس سالہ عبداللہ مرسی دنیا سے رخصت ہوا تو یہی کہا گیا کہ ’’موت آئی اور مر گیا‘‘ ایک سال بعد اس کے وکلا نے بتایا کہ اسے زہر دیا گیا تھا۔ اسے دانستہ اسپتال سے دور رکھا گیا۔ انتظار کیا گیا کہ ڈاکٹر سے پہلے ملک الموت پہنچ جائے۔ انتظار رائگاں نہیں گیا۔ جب اسے بیس کلومیٹر دور اسپتال پہنچایا گیا تو موت کا فرشتہ اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہو چکا تھا۔
یہ نیا واقعہ ہے نہ انوکھا۔ یہ مسلم معاشروں کا روزمرہ ہے۔ حسن البنا 1949ء میں خفیہ پولیس کے ہاتھوں شہید ہوئے اور سید قطب 1964ء میں تختہ دار پر چڑھا دیے گئے۔ تب سے یہ سلسلہ رواں دواں ہے۔ محمد مرسی نے دورِ حاضر کے سب تقاضے پورے کر دیے۔ ووٹ کی قوت سے صدر بنے لیکن انجام وہی ہوا، سید قطب والا۔ ان کا خاندان بھی سید قطب کے خانوادے کی طرح تختہ ستم پر چڑھا رہا۔ مرسی کا ایک بیٹا مار ڈالا گیا۔ دوسرا جیل میں ہے۔ کیا ظلم کی اس داستان کا کوئی اختتام بھی ہے؟
مسلم معاشروں میں آزادیٔ رائے کیوں نہیں؟ جمہوریت کو کیوں جھٹلایا جاتا ہے؟ کیوں لوگ ہجرت پر مجبور کردیے جاتے ہیں؟ ہجرت بھی کہاں؟ برطانیہ، امریکا، جرمنی، وہ ممالک جنہیں ہماری لغت میں ’’دارالکفر‘‘ کہتے ہیں۔ ’’حزب التحریر‘‘والوں کو برطانیہ میں پناہ ملی۔ فلسطینی امریکا‘ یورپ میں آباد ہیں۔ شام کی خانہ جنگی سے گھبرا کر بھاگنے والے جرمنی میں ہیں۔ ان سب کو پناہ ملی تو کسی مسلمان ملک میں نہیں، کفر کے مراکز میں۔
عراق‘ افغانستان میں امریکی مظالم سے کون آنکھیں بند کر سکتا ہے؟ لیکن اس بات سے کیسے آنکھ بند کی جائے کہ جو آزادیٔ رائے کی حفاظت کرنا چاہتا ہے، اسے امریکا اور یورپ ہی میں جگہ ملتی ہے۔ کوئی عمر کا آخری حصہ آسودگی سے بسر کرنا چاہتا ہے تو برطانیہ‘ امریکا کا انتخاب کرتا ہے۔ ایک مسلمان کی تو خواہش ہونی چاہیے کہ موت سے پہلے بیت اللہ کے قرب میں رہے یا مسجد نبوی کے پڑوس میں۔ میرے علم میں نہیں کہ اسلامی تحریک کے کسی رہنما نے ان پاکیزہ مقامات کے پاس رہنے کو ترجیح دی ہو۔
سیکولرزم سے کمیونزم تک آپ جس نظریے پر چاہیں، تنقید کریں۔ امریکا سے برطانیہ تک، آپ جس ملک کی خارجہ پالیسی کو ہدف بنانا چاہیں، بنائیں۔ آپ کو یہ آزادی انہی ممالک میں میسر ہے۔ امریکا میں اگر اسرائیل نواز موجود ہیں تو فلسطینیوں کے غمگسار بھی ہیں۔ مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز اُٹھانے والے بھی ہیں۔ کسی کو یہ خوف نہیں کہ اٹھا لیا جائے گا۔ چومسکی ڈنکے کی چوٹ پر امریکی حکومت کو نہیں، امریکی ریاست کو دہشت گرد کہتے ہیں لیکن کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا‘‘۔ (روزنامہ دنیا: 10 ستمبر 2020ء)
یہ ایک اصولی بات ہے کہ افراد اور قوموں کو اپنی کمزوریوں کو کھلے دل سے تسلیم اور قبول کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ مسلم دنیا میں آزادی کا قحط پڑا ہوا ہے۔ مسلمانوں کے نہ ذہن آزاد ہیں نہ ان کی رائے آزاد ہے، مگر مسلم دنیا کے بارے میں اہم ترین اور تلخ ترین بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے اتنے ہی آزاد ہیں جتنا مغرب چاہتا ہے۔ مسلم دنیا کی کون سی چیز ہے جو مغرب کے زیر اثر نہیں۔ کیا پاکستان، مصر یا ترکی کا کوئی جرنیل امریکا کو اعتماد میں لیے بغیر مارشل لا لگا سکتا ہے؟ پاکستان کی تاریخ ہمارے سامنے ہے، یہاں مارشل لا آتا ہے تو امریکا کی مرضی سے، جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امریکا کی مرضی سے، جہاد ہوتا ہے تو امریکا کی مرضی سے، جہاد کی مخالفت ہوتی ہے تو امریکا کی مرضی سے۔ کیا جنرل ایوب امریکا کی گود میں بیٹھے ہوئے نہیں تھے؟ کیا جنرل ضیا الحق طویل عرصے تک امریکا کی ’’گڈ بکس‘‘ کا حصہ نہیں تھے؟ کیا جنرل پرویز مشرف کو جارج بش کے جوتے چاٹنے کے تصور کے تحت اہل مغرب نے ’’بشرف‘‘ کہہ کر نہیں پکارا۔ لیکن امریکا اور یورپ صرف مسلم دنیا کے جرنیلوں کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ مسلم دنیا کے نام نہاد سیاسی اور جمہوری رہنمائوں کے ساتھ بھی ہے۔ کیا میاں نواز شریف امریکا کی مٹھی میں نہیں ہیں۔ میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف سے ڈیل کرکے سعودی عرب فرار ہوئے تو آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے صاف کہا کہ امریکا اپنے آدمی کو نکال لے گیا۔ کیا بے نظیر بھٹو امریکی پٹھو نہیں تھیں؟ کیا امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر کوانڈا لیزا رائس نے اپنی خود نوشت میں نہیں لکھا کہ بے نظیر اور جنرل پرویز کے درمیان NRO انہوں نے کروایا؟ کیا الطاف حسین امریکی سی آئی اے اور برطانوی ایم آئی 6 کے پٹھو نہیں ہیں؟ جنرل سیسی نے جب مصر میں صدر مرسی کی حکومت کو برطرف کیا تو امریکا نے اس کی مذمت تک نہیں کی۔ امریکا نے جنرل سیسی کے مارشل لا کو مارشل لا تک قرار نہیں دیا، کیوں کہ اس صورت میں اسے مصر کی امداد پر پابندی لگانی پڑ جاتی۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف مسلم دنیا کے فوجی اور سول آمروں کی کہانی نہیں۔ مسلم دنیا کا کون سا ایسا بادشاہ ہے جو امریکا کی گود میں نہیں بیٹھا ہوا۔ کیا امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں یہ نہیں فرمایا کہ سعودی عرب کے حکمران امریکا کی وجہ سے اقتدار میں ہیں۔ انہیں امریکا کی ڈھال فراہم ہے۔ اگر یہ ڈھال نہ ہو تو سعودی حکمرانوں کے خلاف دس دن میں بغاوت ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف سعودی عرب کا معاملہ نہیں۔ مشرق وسطیٰ کا ہر بادشاہ امریکا یا یورپ کے کسی نہ کسی ملک کی مٹھی میں ہے۔ چناںچہ مسلم دنیا میں اتنی ہی جمہوریت ہے جتنی مغرب چاہتا ہے۔ اتنی ہی آزادی رائے ہے جتنی مغرب کو مطلوب ہے۔ اتنی ہی وسیع المشربی ہے جتنی مغرب کو پسند ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بلاشبہ مسلمان بھی اپنے زوال کے ذمے دار ہیں مگر مغرب بھی مسلم معاشروں کی حالت کا ذمے دار ہے۔ مگر جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم مسلم دنیا کی ساری کمزوریوں کو صرف مسلمانوں سے منسوب کرتے ہیں، وہ اس سلسلے میں مغرب کے مجرمانہ بلکہ شیطانی کردار کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ وہ صرف مسلم معاشروں کو شرمندہ کرتے ہیں، انہیں مغرب کی طرف اُنگلی اُٹھانے کی جرأت نہیں ہوتی۔ یہ مغرب کی غلامی نہیں تو اور کیا ہے؟۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلامی تحریکیں ہر مسلم معاشرے میں فوجی آمروں، بدعنوان اور نااہل سول حکمرانوں اور مغرب کے ایجنٹوں کا متبادل بن کر اُبھریں مگر انہیں مغرب نے کہیں بھی اُبھرنے، اقتدار میں آنے یا اقتدار میں رہنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تھی۔ اسلامی فرنٹ کو اقتدار میں آنے دیا جاتا تو الجزائر میں حقیقی جمہوریت بھی آجاتی، آزادی اظہار کا تحفظ بھی ہوجاتا۔ الجزائر کو مغرب کے غلاموں سے بھی نجات مل جاتی۔ معاشرے میں اُمید کے چراغ بھی جل اُٹھتے مگر مغربی دنیا نے الجزائر کی فوج کو کتے کی طرح اسلامی فرنٹ پر چھوڑ دیا اور ملک میں خانہ جنگی کراکے دس سال میں دس لاکھ لوگ مروا دیے۔
ان دس برسوں میں مغرب نے ایک بار بھی الجزائر کے جرنیلوں کی اس بات پر مذمت نہیں کی کہ انہوں نے جمہوری عمل کو سبوتاژ کیا۔ اقتدار پر قبضہ کیا۔ انتخابات کی راہ روکی۔ ملک میں خانہ جنگی برپا کرائی۔ مغرب نے الجزائر کے جرنیلوں یا فوج کی مذمت نہیں کی تو اس لیے کہ مغرب ان کی پشت پناہی کررہا تھا۔ الجزائر کی کہانی ترکی میں دوسری طرح دہرائی گئی۔ وہاں نجم الدین اربکان کو اقتدار میں تو ’’آنے‘‘ دیا گیا مگر اقتدار میں ’’رہنے‘‘ نہیں دیا گیا۔ حماس جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئی مگر مغرب نے غزہ میں اپنی محبوب جمہوریت پر تھوک دیا۔ حماس کی سیاسی، جمہوری پرامن حکومت ناکام ہوگئی۔ اس کے باوجود بھی خورشید ندیم کہتے ہیں کہ مسلم دنیا میں آزادی اظہار نہیں۔ مسلم دنیا میں جمہوریت نہیں اور مسلم دنیا اپنے اس احوال کی خود ذمے دار ہے۔ بلاشبہ اقبال کے الفاظ میں غلامی نے خورشید ندیم کے خوب کو ناخوب بنادیا ہے اور ان کے ضمیر کو بدل ڈالا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مغرب نے اسلامی تحریکوں کے بعض افراد کو اپنے یہاں پناہ دی ہے۔ لیکن اس کی وجہ مغرب کی وسیع النظری یا وسیع القلبی نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکیں کئی مسلم ممالک میں سیکولر اور لبرل قوتوں اور خود جرنیلوں کی ’’متبادل‘‘ ہیں اور مغرب جرنیلوں اور سیکولر اور لبرل عناصر کے ساتھ ساتھ ان کے ’’متبادل‘‘ سے بھی رابطہ رکھنا چاہتا ہے۔ اس کی ایک وجہ ایران کا تجربہ ہے۔ ایران میں مغرب کا اصل آدمی رضا شاہ پہلوی تھا چناںچہ امریکا اور یورپ نے خمینی اور ان کی تحریک کو یکسر نظر انداز کیا۔ چناںچہ ایران میں انقلاب آیا تو مغرب انقلابی قوتوں سے رابطے میں نہیں تھا۔ اس سے مغرب کو بہت نقصان ہوا۔ بیس پچیس سال تک ایران کے دروازے مغرب پر بند رہے۔ مغرب یہ غلطی کسی اور مسلم ملک میں نہیں دہرانا چاہتا۔ چناںچہ وہ بعض اسلامی تحریکوں سے بھی رابطے میں رہتا ہے۔ مگر اس نے کبھی مسلم ملکوں میں اسلامی تحریکوں پر ہونے والے ظلم کی نہ مذمت کی نہ اس ظلم کو رکوانے میں کوئی کردار ادا کیا۔ یہ ہے اسلامی تحریکوں کو ساتھ مغرب کے تعلق کی اصل صورتِ حال۔
خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ چومسکی امریکا میں رہتے ہوئے امریکا پر سخت تنقید کرتا ہے مگر اسے کچھ نہیں کہا جاتا۔ یہ خورشید ندیم کی خوش فہمی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا میں چومسکی کا اثر صرف ’’اکیڈمک سرکل‘‘ پر ہے۔ چناںچہ امریکی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ یہ ہمارا کیا بگاڑ لے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے آج تک نوم چومسکی کو سی این این یا کسی بڑے امریکی چینل پر نہیں آنے دیا۔ چناںچہ امریکی عوام کی عظیم اکثریت کو آج تک معلوم نہیں کہ ان کے ملک میں ایک چومسکی بھی ہے جو امریکا کو بدمعاش ریاست کہتا ہے۔ خورشید ندیم غور کریں گے تو ان پر آشکار ہوگا کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے چومسکی کو دیوار سے لگا کر رکھا ہوا ہے۔ چناںچہ چومسکی امریکا میں زندہ ہو کر بھی مردہ ہیں۔ خورشید ندیم کو امریکا کی آزادی رائے پر اعتبار ہے تو وہ سی این این یا فوکس نیوز پر چومسکی سے امریکا کے خلاف صرف دس لیکچر دلوا کر دکھائیں۔