اے پی سی اور حلوا

647

 سننے میں آرہا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کی اے پی سی 20 ستمبر کو (آج) اسلام آباد میں ہونے والی ہے اور زرداری ہائوس میں جگہ کم پڑجانے کے سبب اس کے لیے ہوٹل میں بکنگ کروالی گئی ہے۔ اس خبر کے ساتھ ہی پسِ پردہ سیاسی سرگرمیاں بھی تیز ہوگئی ہیں اور حضرت مولانا بھی حرکت میں آگئے ہیں۔ اے پی سی درحقیقت ان کا خواب ہے اور وہ اس کی تعبیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک مدت سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قائدین پر زور دے رہے تھے کہ اے پی سی بلا کر عمران حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا جائے لیکن زبانی کلامی وعدوں کے سوا کوئی عملی قدم اُٹھانے کو تیار نہ تھا لیکن اے پی سی کی تاریخ طے ہونے کے بعد حضرت مولانا کو اُمید ہے کہ
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا!!
اے پی سی اگر مقررہ تاریخ پر ہوگئی تو اس میں کچھ نہ کچھ طے پا ہی جائے گا اس لیے حضرت مولانا سیاستدانوں کے ساتھ ملاقاتوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی پہلی ملاقات مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین سے ہوئی ہے اگرچہ ان دونوں حضرات کا دعویٰ ہے کہ یہ سراسر غیر سیاسی ملاقات تھی۔ حضرت مولانا چودھری صاحب کی خیریت دریافت کرنے ان کے درِ دولت پر حاضر ہوئے تھے اور بس، اس ملاقات کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہ تھا لیکن دل نہیں مانتا، یہ کیسے ممکن ہے کہ دو چوٹی کے سیاستدان آپس میں ملیں اور گفتگو صرف خیریت دریافت کرنے تک محدود رہے۔ ملاقات کے بعد اگرچہ دونوں سیاستدانوں نے مشترکہ طور پر میڈیا کا سامنا کرنے سے بھی گریز کیا لیکن حضرت مولانا اپنے طور پر اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے مجوزہ اے پی سی کے بارے میں کچھ اشارے دے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اے پی سی میں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کتنا حلوا کھا سکتے ہیں، ورنہ حکومت سارا حلوا کھا جائے گی۔ حلوے پر ہمیں وہ مشہور لطیفہ یاد آیا جو یقینا ہمارے قارئین نے بارہا سنا ہوگا لیکن یہاں بھی اس کی تکرار مناسب معلوم ہوتی ہے۔ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک مولوی صاحب گھر پر بچے کو پڑھانے جاتے تھے وہ اسے حلوے کا تلفظ سکھا رہے تھے ’’حلوا، حلق سے نکالو حلوا‘‘ بچے کی ماں کے کان میں مولوی صاحب کی آواز پڑی تو وہ گھبرائی ہوئی کمرے میں آئی اور بولی ’’مولوی صاحب بچے کے حلق سے حلوا نہ نکلوائیں، میں تازہ بنا کر بھیج دیتی ہوں‘‘۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا بھی چودھری شجاعت کے حلق سے حلوا نکلوانے گئے تھے لیکن انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ چودھریوں کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر حکومت میں حلوا کھانے کا گُر جانتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دسترخوان پر بھی وہ حلوے پر ہاتھ مار رہے ہیں اور حکومت کے مخالفین سے بھی یاری نبھارہے ہیں۔ حضرت مولانا سے بھی ان کی دانت کاٹی دوستی ہے، اس دوستی کا خمیازہ حضرت مولانا بھگت چکے ہیں جب وہ ان کی یقین دہانی پر حکومت کے خلاف اپنا دھرنا لپیٹ کر اسلام آباد سے چلے گئے تھے۔ پھر ’’رات گئی بات گئی‘‘ کے مصداق چودھریوں کی کوئی یقین دہانی پوری نہ ہوئی اور حضرت مولانا تلملا کر رہ گئے۔
بات حلوے کی چلی ہے تو یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ خود حضرت مولانا بھی حلوا کھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے زمانے سے حلوا کھا رہے ہیں بلکہ اس سے بھی پہلے بے نظیر بھٹو کے دور حکومت سے ان کی پانچوں گھی میں رہی ہیں البتہ عقل مندی انہوں نے یہ کی کہ سر کڑھائی میں نہیں ڈالا۔ میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ ہو یا زرداری کی صدارت، حضرت مولانا نے دونوں سے بنا کر رکھی اور کشمیر کمیٹی کا حلوا انہیں پلیٹ میں رکھ کر ملتا رہا لیکن 2018ء کے انتخابات کے بعد ان پر بہت مشکل وقت آیا ہوا ہے۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اگر حضرت مولانا انتخابات میں شکست نہ کھاتے تو مسلم لیگ (ق) کی طرح حکومت کا حصہ ہوتے اور عمران خان کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ انہیں طشتری میں رکھ کر پیش کرتے۔ بہرکیف ایسا نہ ہوسکا اور اب عمران حکومت سے حضرت مولانا کی ٹھنی ہوئی ہے۔ حکومت کے خلاف دھرنا انہوں نے اپنے بَل پر دیا تھا لیکن اے پی سی ’’ون مین شو‘‘ کا نام نہیں ہے۔ اس میں بڑی سیاسی جماعتوں کی شرکت ضروری ہے۔ حضرت مولانا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو بڑی مشکل سے ڈھب پر لائے ہیں یہاں تک کہ انہیں حلوے کا لالچ بھی دیا ہے لیکن سیانے کہتے ہیں کہ حلوا کھا کھا کر یہ لوگ پہلے ہی بدہضمی کا شکار ہوچکے ہیں اور ان دنوں نیب
کے زیر علاج ہیں اور نیب ان کے حلق سے حلوا نکلوانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس لیے اے پی سی میں ان دونوں جماعتوں کا متحرک ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔ ابھی اے پی سی ہوئی نہیں کہ میاں نواز شریف کی سیاسی جانشین مریم نواز صاحبہ نے اس میں عدم شرکت کا اعلان کرکے حضرت مولانا کو ایک نئے صدمے سے دوچار کردیا ہے۔ مریم نواز اور حضرت مولانا کے سیاسی موقف میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے دونوں عمران حکومت سے براہ راست ٹکرائو پر یقین رکھتے ہیں۔ اے پی سی میں مریم نواز کی شرکت سے حضرت مولانا کا پلڑا بھاری رہتا اور وہ اجلاس میں حکومت کے خلاف سخت فیصلے کرانے میں کامیاب رہتے، لیکن اب سننے میں آرہا ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں حکومت کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اُٹھانے سے کنّی کترا رہی ہیں۔ وہ حضرت مولانا کو کچھ لکھ کر دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اے پی سی ہوئی تو اس سے چند تقریروں کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ممکن ہے کہ کوئی مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہ ہوسکے، رہی مشترکہ پریس کانفرنس تو اس کا امکان بھی کم نظر آرہا ہے۔ بیش تر سیاستدان اپنی گردن بچانے کی فکر میں ہیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ نتھی نہیں ہونا چاہتے، اس کا اندازہ ہم شہباز زرداری ملاقات سے لگا سکتے ہیں جس کے بعد دونوں حضرات نے میڈیا کا سامنا کرنے سے گریز کیا تھا۔
بہرکیف یوں لگتا ہے کہ اے پی سی میں شریک جماعتیں وہ حلوا نہیں کھا سکیں گی جس کا ذکر حضرت مولانا نے میڈیا سے گفتگو میں کیا تھا اور یہ سارا حلوا حکومت ہڑپ کرجائے گی۔ گزشتہ 2 سال سے یہی ہورہا ہے حکومت حلوا کھا رہی ہے اور اپوزیشن اسے للچائی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔