ڈراتا ہوا چین

624

ترجمہ: ابو الحسن اجمیری
(چین کی بڑھتی ہوئی قوت سے علاقائی طاقتیں زیادہ خوفزدہ ہیں۔ امریکا اور یورپ کا ردعمل تو سمجھ میں آتا ہے اور اُن کی بدحواسی بھی ناقابلِ فہم نہیں مگر اب آسٹریلیا بھی چین کے حوالے سے غیر معمولی خدشات کا اظہار کرکے علاقائی ماحول کو مکدّر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ امریکا اور یورپ کے ایجنڈے پر عمل کیا جارہا ہو۔ آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم کیوِن رَڈ کہتے ہیں کہیںکہ شی جن پنگ کے عہدِ صدارت میں چین نے زیادہ نمایاں ہونے کی کوشش کی ہے۔ اب چین بیش تر معاملات میں اپنی بات منوانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ اُس کی پالیسیوں میں غیر معمولی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوتی جارہی ہیں۔ زیر نظر مضمون کیوِن رَڈ کے انٹرویو کی مدد سے تیار کیا گیا ہے جو ورلڈ پالیٹکس ریویو ڈاٹ کام کے ایڈیٹر انچیف جُوڈا گرنسٹین نے کیا۔ کیوِن رَڈ ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سابق صدر ہیں۔)
………..
ابھی کل تک چین پالیسیوں پر کاربند تھا جن کے نتیجے میں اُس کا تو بھلا ہوتا تھا مگر دوسروں کے لیے مسائل پیدا نہیں ہوتے تھے۔ انگریزی میں کہیے تو چینی قیادت win-win سوچ کی حامل تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ شی جن پنگ کی قیادت میں چین اُس راہ پر گامزن ہے جو قطعی بالا دستی کی طرف لے جاتا ہے۔ چین نے اپنا راستہ تبدیل کرتے ہوئے اب حقیقی عالمی طاقت بننے کی طرف سفر شروع کردیا ہے۔ اُس کی پالیسیوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی جارہی ہیں۔ اِن تبدیلیوں سے بڑی طاقتیں ہی نہیں، علاقائی ریاستیں بھی الجھن محسوس کر رہی ہیں۔ شی جن پنگ میں ہم ایک ایسی شخصیت دیکھ رہے ہیں جو چین کو ہر حال میں عالمی طاقت بنانے کی ٹھانے ہوئے ہے۔ وہ چین کے اثر و رسوخ کو اُس کی سرحدوں سے باہر بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
چین ایک بڑی حقیقت ہے۔ اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں مگر امریکا اور یورپ نے چین کے معاملے میں قطعی غیر متوازن طرزِ فکر و عمل اپنائی ہے۔ امریکی دارالحکومت میں چین کے حوالے سے کچھ زیادہ تشویش پائی جارہی ہے۔ یہ غیر حقیقی طرزِ فکر و عمل ہے۔ چین ایک بڑی طاقت ہے اور اُس کی طاقت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُسے قابو میں کرنے کی خاطر تمام ہی معاملات بگاڑ لیے جائیں۔ معاشی و مالیاتی نظام، ٹیکنالوجی اور عسکری طاقت کے لحاظ سے امریکا اب بھی چین سے بہت آگے ہے۔ اِن تینوں شعبوں میں امریکا کی مضبوط پوزیشن اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ چین کے معاملے میں بدحواس ہونے کے بجائے متوازن طرزِ فکر و عمل سے کام لیا جائے۔
امریکا، یورپ اور آسٹریلیا میں یہ تصور تیزی سے ابھر رہا ہے کہ چین نے راستہ بدل لیا ہے۔ ٹھیک ہے مگر یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ چین کی تجارتی پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہونے والی نہیں۔ وہ پوری دنیا کو مارکیٹ سمجھ کر اس پر چھا جانا چاہتا ہے اور دوسری طرف وہ اپنی اندرونی مارکیٹ کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ بنیادی حقوق اور سیاسی آزادی کے حوالے سے بھی چین کا ریکارڈ بدتر ہوتا جارہا ہے۔ امریکا، یورپ اور آسٹریلیا کو مختلف معاملات میں چین سے فعال نوعیت کی رقابت کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جو کچھ چین میں ہو رہا ہے اور چینی قیادت علاقائی اور عالمی سطح پر جو کچھ کرنا چاہتی ہے میں اُس سے ذرا بھی حیران نہیں۔ یہ حقیقت بھی کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ چین نے شی جن پنگ کی قیادت میں اپنی طاقت بڑھائی ہے۔ خواہ کسی پہلو یا زاویے سے جائزہ لیجیے، چین کی طاقت بڑھی ہے۔ اور اس وقت چین کے معاملات ایک ایسی شخصیت کے ہاتھ میں ہیں جو چاہتی ہے کہ اُس کا ملک تیزی سے ابھرے اور بہت کچھ اپنے ہاتھ میں لے۔ صدر شی جن پنگ چاہتے ہیں کہ چین کو ایک حقیقی بڑی قوت کی حیثیت سے تسلیم اور قبول کیا جائے۔ دنیا سے اپنی حیثیت منوانے کا معاملہ خواہش تک محدود نہیں۔ اب چین اتنا طاقتور ہے کہ جو کہے اُسے بہت حد تک منواکر بھی دم لے۔
دنیا بھر میں یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ امریکا اور یورپ کے متعارف کرائے ہوئے لبرل اکنامک سسٹم کو چین سے واضح خطرہ ہے۔ چین نے لبرل معیشت اور جمہوریت کو اب تک بڑھاوا نہیں دیا۔ چینی قیادت ملک کو ریاستی نظم و ضبط کے تحت چلارہی ہے۔ امریکا اور یورپ میں معاشرے اور معیشت دونوں کو غیر معمولی آزادی میسر ہے۔ معاشی نظام پر ریاستوں کا تصرف زیادہ نہیں۔ لبرل نظام کی بقاء کے لیے دنیا بھر میں مل کر کام کرنے کا تصور ابھر رہا ہے۔ یہ تصور اس لیے بھی ابھر رہا ہے کہ اُنہیں چین کی شکل میں اس نظام کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ، مشترکہ دشمن دکھائی دے رہا ہے۔
شی جن پنگ نے تمام معاملات کو یکسر پلٹ نہیں دیا۔ انہوں نے اپنے ہر پیش رَو کی پالیسیوں کے بعض اجزاء اب تک برقرار رکھے ہیں اور دوسری طرف اپنی سوچ بھی پالیسیوں میں داخل کی ہے۔ ہُو جنتاؤ کے عہد میں ہم نے دیکھا کہ چین اپنے آپ کو بحیرۂ جنوبی چین کے خطے میں زیادہ قوت کے ساتھ منوانے کی کوشش کر رہا ہے۔ شی جن پنگ کے عہد میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ چین نے مختلف جزائر پر اپنی ملکیت کا دعوٰی زیادہ قوت کے ساتھ کیا ہے اور اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔
شی جن پنگ نے ملک کے سیاسی معاملات کو بھی زیادہ سختی سے کنٹرول کرنے پر توجہ دی ہے۔ انہوں نے سیاسی امور پر کمیونسٹ پارٹی کی گرفت مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ چینی سیاست مزید بائیں طرف جُھک گئی ہے۔ چین میں معاشی محاذ پر بھی چند ایک بڑی تبدیلیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ سرکاری اداروں کا عمل دخل بڑھ گیا ہے۔ نجی شعبے نے ملک کو معاشی استحکام فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے مگر اب نجی شعبے کے لیے ترغیب و تحریک میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔
بیرونی محاذ پر ہم ایک ایسا چین دیکھ رہے ہیں جسے اپنی طاقت کا پوری شدت سے احساس ہے اور جو اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ روس نے چین کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سی پیک اور دیگر بہت سے معاملات میں اب چین اور روس مل کر علاقائی سطح پر بڑا بلاک بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ بحیرۂ جنوبی چین کا معاملہ ہو یا بحیرۂ مشرقی چین کا، بھارت سے سرحدی تنازعات ہوں یا ہانگ کانگ، تائیوان وغیرہ سے اختلافات، چین ہر محاذ پر اپنی بات منوانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ زیادہ طاقتور اور سخت گیر پالیسیاں اپنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو کے حوالے سے چین نے زیادہ کھل کر سامنے آنے کو ترجیح دی ہے۔ وہ ایک بڑا تجارتی نیٹ ورک قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ نیٹ ورک امریکا اور یورپ دونوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہے کیونکہ اِس کے کامیاب ہونے کی صورت میں اُن کی بالا دستی داؤ پر لگ جائے گی۔
چین میں سیاست کیا رخ اختیار کر رہی ہے، کچھ پتا نہیں چلتا۔ کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ سے زیادہ لیننسٹ ہے۔ معاملات کو بہت ڈھکا چُھپا رکھا جاتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی چاہتی ہے کہ باہر کی دنیا کو چینی سیاست کا زیادہ علم نہ ہو۔ اس وقت ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شی جن پنگ کی شخصیت میں تمام اختیارات مرتکز ہوگئے ہیں۔ وہ یقینی طور پر ڈینگ ژیاؤ پنگ کے بعد طاقتور ترین لیڈر اور چیئرمین ماؤ زے تنگ کی بات کیجیے تو شی جن پنگ کے لیے ’’شاید‘‘ کہنا پڑے گا۔ اس وقت چین میں کچھ بھی شی جن پنگ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ وہ پولٹ بیورو کے ہر فیصلہ ساز گروپ کے سربراہ ہیں۔ اختیارات کا ایسا ارتکاز چین میں پہلے شاید ہی دیکھا گیا ہو۔
اقتدار پر شی جن پنگ کی گرفت مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور سینٹرل ملٹری کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ نیشنل پیپلز کانگریس اُنہیں ایک اور معیاد کے لیے صدر منتخب کرنے کے موڈ میں دکھائی دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈینگ ژیاؤ پنگ کے دور کا مشترکہ قیادت کا اصول بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔
شی جن پنگ 2020 اور 2030 کے عشروں میں بھی چین کی قیادت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ یہ سب کچھ کیسے کریں گے، یہ دیکھنا باقی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اور یورپ کو چین سے واقعی اُتنا ڈرنا چاہیے جتنا وہ اِس وقت ڈر رہے ہیں۔ امریکا کے لیے چین پریشان کُن ہے مگر چین سے بہت زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ امریکا اب بھی عالمی سیاست و معیشت میں غیر معمولی حیثیت کا حامل ہے۔ عسکری طاقت اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے وہ اب بھی چین سے آگے ہے اس لیے بہت زیادہ خوف محسوس کرنا غیر منطقی ہے۔
چین میں امریکا کو سمجھنے کے حوالے سے غلط فہمی یا خوش فہمی نہیں پائی جاتی۔ چینی اسکالرز جانتے ہیں کہ امریکا طاقتور ہے اور اُس کی طاقت کا سامنا کرنے کے لیے طاقت ہی پیدا کرنا پڑے گی۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا امریکی قیادت کسی بھی قضیے پر چین سے براہِ راست عسکری مناقشے کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔ ایسا فی الحال تو ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ ہاں، چین کے سیاسی و دفاعی امور کے تجزیہ کار اس حقیقت سے انکار نہیں کرتے کہ امریکا واقعی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اور بالخصوص عسکری معاملات میں اُس کی پوزیشن بہت مستحکم ہے۔ چیئرمین ماؤ زے تنگ کے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ امریکا کاغذی شیر ہے۔ اب چین میں کوئی بھی امریکا کو کاغذی شیر سمجھنے کی حماقت نہیں کرتا۔
World Politics Review
Kevin Rudd on ‘an Infinitely More Assertive China’ Under Xi Jinping
The Editors
Friday, Sept. 11, 2020