بھارت کی طالبان کو سرکاری دورے کی دعوت

1204

بین الافغان مذاکرات کے دوران زلمے خلیل زاد کا دورۂ پاکستان کتنا اہم ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے فوری بعد بھارت نے افغان طالبان کو مذاکرات کی دعوت دے دی، افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں بین الافغان مذاکرات سمیت علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پیر 14 ستمبر 2020ء کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق زلمے خلیل زاد کی قیادت میں وفد نے جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں پاکستانی حکام سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں امریکی قونصل خانے کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق خلیل زاد نے دورۂ اسلام آباد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ’’خلیل زاد نے امریکا کی، افغان امن مرحلے میں پیش رفت کے لیے جاری، کوششوں پر بات چیت کی اور افغان فریقین کے درمیان مذاکرات کے فوری آغاز کے لیے پاکستان سے تعاون کا مطالبہ کیا‘‘۔ امریکی قونصل خانے کی طرف سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ: ’’خلیل زاد نے ماہِ جنوری کے آخر میں افغانستان میں اغوا کیے گئے امریکی شہری مارک فریرچ کی رہائی کے لیے بھی اسلام آباد سے مدد کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی قونصل خانے کے مطابق پاکستان کے فوجی حکام نے امریکاکی کوششوں کے ساتھ تعاون کا اعادہ کیا ہے۔
زلمے خلیل زاد کے دورۂ پاکستان کی ایک اور وجہ ذرائع یہ بتاتے ہیں وہ پاکستان سے دو اور باتیں بھی کرنے بھی یہاں تشریف لائے تھے۔ ایک یہ تھا کہ پاکستان افغان طالبان کو مجبور کر ے کہ وہ افغانستان کی نئی حکومت میں امریکا کا بھی حصہ رکھے، اس کے علاوہ افغانستان میں ایک عبوری حکومت بنائی جائے جس کا ’’وزیرِ اعظم زلمے خلیل زاد کو بنایا جائے‘‘ جو نئے انتخابات کرائیں۔
اس سلسلے میں ایک اور بات منگل کی شام سامنے آئی ہے جس میں پاکستان سے فرار ’’ملالہ یوسفزئی‘‘ کی پریس کانفرنس ہے۔ جس میں اس نے مطالبہ کیا کہ ان ’’انٹرا افغان مذاکرات‘‘ میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ عورتوں کے حقوق پر ان مذاکرات کے منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ عورتوں کو مکمل آزادی، اور ان کی تعلیم پر پابندی نہ لگائی جائے۔ اس سے یہ بات صاف نظر آرہی ہے امریکا، بھارت اور اشرف غنی کی افغان حکومت طالبان سے میدان جنگ میں ہاری جنگ کو مذاکرات کی میزپر جیتنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
پاکستان نے اپنا 5نکاتی مطالبہ بھی رکھ دیا ہے، اس میں پہلا مطالبہ یہ ہے افغانستان کی سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ یہ اطلاع میں اپنے آرٹیکل میں دے چکا ہوں کہ اشرف غنی ان مذاکرات میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، بھارت اور اشرف غنی کی یہ کوشش ہے کہ امریکی افواج ابھی افغانستان سے نہ جائیں لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 29ستمبر کو افغانستان سے بہت بڑی امریکی فوج کا انخلا چاہتے ہیں اس علاوہ افغان حکومت کی جانب سے پہلی ترجیح جنگ بندی ہے جب کہ طالبان کا اصرار ہے پہلے دیگر امور پر بات چیت کر لی جائے۔ ان میں سب سے اہم بات افغانستان میں اسلامی حکومت کا قیام ہے جس کے خلاف امریکا 20 سال سے جدوجہد کر رہا ہے لیکن اب وہ اس بات رضا مند ہوگیا افغان انٹرا مذاکرات کے ہر فیصلے کو امریکا من و عن تسلیم کرے گا۔ افغانستان میں اشرف غنی حکومت کی جانب سے آئے روز تشدد کے واقعات بین الافغان امن مذاکرات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ہفتے کو مذاکرات کے آغاز پر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک بیان میں کہا تھا کہ فریقین پر اب بھاری ذمے داری ہے کہ وہ افغانستان کے بہتر مستقبل کے لیے اتفاق رائے پیدا کریں۔ لیکن امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دوحا سے روانگی کے فوری بعد ’’افغان انٹرا مذاکرات فوری طور پر تعطل کا شکار ہو گئے‘‘۔
ہم نے 20اگست 2020 کو اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ: ’’جلال آباد کی مرکزی جیل میں منگل کی رات ہونے والے ’’جیل توڑ‘‘ حملے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 50افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ان حملوں میں مرنے والوں میں اکثریت ان طالبان کی ہے جن کی رہائی کو طالبان نے ’’افغانستان میں قیام امن سے مشروط کر رکھا تھا اور افغان صدر اشرف غنی قیدیوں کی رہائی میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے‘‘۔ ان حملوں کی شدت کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’یہ حملہ داعش یا کسی بھی شدت پسند تنظیم کا اکیلے نہیں ہوسکتا بلکہ اس حملے میں ایک سے زائد حکومتیں شامل ہیں۔ حملہ آوروں کے پاس اس قدر اسلحہ موجود تھا جس سے انہوں نے 20گھنٹے تک افغان فوج کا مقابلہ کیا۔ اس دوران بہت سے حملہ آور بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ بھارت کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ اسلامی ممالک سے مل کر پاکستان کے خلاف کارروائی کرے اس مقصد کے لیے وہ ایران، افغانستان اور سینٹرل ایشیا، سائوتھ ایشیا اور مڈل ایسٹ کے اسلامی ممالک کو استعمال کرتا رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف شدت پسندوں کو استعمال کرنے کے لیے
2014ء میں بھارتی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دوول نے شام اور عراق کا دورہ کیا جس کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ وہ ان ممالک کے جنگ زدہ علاقوں میں پھنسے بھارتی شہریوں کے انخلا پر بات چیت کرنے گئے تھے، مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ اس دورے کی آڑ میں دہشت گرد تنظیموں کے سربراہوں اور اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ اسی دوران قندھار میں بھارتی قونصلیٹ کو تحریک طالبان پاکستان اور عراق اور شام میں شدت پسند عناصر کے درمیان تعلقات کے قیام اور فروغ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را کی طرف سے افغانستان میں القاعدہ اور عراق اور شام میں شدت پسندوں کے ساتھ تعلقات پر توجہ کا بنیادی مقصد پاکستان میں دہشت گردی کی نئی مہم کا آغاز ہے‘‘۔
بھارت نے ایک مرتبہ پھر طالبان کو سرکاری دورے کی دعوت دی۔
بھارت کی ایک ہی کوشش ہے کہ چین اور پاکستان سے ہاری ہوئی سفارتی اور عسکری محاذ کی جنگ کو کسی طرح طالبان سے دوستی کر کے ان کو اس بات پر راضی کر لیا جائے کہ ’’طالبان کشمیریوں کی حقِ خودارادیت کی حمایت نہ کرے۔ اس سلسلے میں طالبان کو اچھی طرح علم ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ ہماری اطلاعات یہ ہیں کہ طالبان ’’شہید ِ مظلوم بابری مسجد‘‘ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے قتل عام اور مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر نے والے ’’مودی‘‘ سے دو دو ہاتھ کرنے کے بعد ہی مذاکرات کو آگے بڑھائیں گے۔ بھارت نے اگر طالبان سے آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کی اس صورت میں طالبان کے لیے راستہ کھلا ہے وہ آسام میں جاری ’’غزوہ ہند‘‘ تحریک کی دامے درمے سخنے مدد کر ے تاکہ بھارت کا وہ علاقہ جو چین سے بچ جائے وہ سر زمین وہی بن جائے جس کے بارے میںاللہ کے رسول نے فرمایا تھا کہ: ’’مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے آرہے ہیں‘‘۔