سندھ حکومت تعلیمی اداروں کو ماسک، سینی ٹائیزر ودیگر سہولیات دینے میں ناکام

628

کراچی (رپورٹ:حماد حسین) سندھ حکومت سرکاری، نیم سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کو کورونا وائرس سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات کے بجائے تعلیم کش اقدامات پر اتر آئی، سندھ حکومت کے تمام اقدامات ایس او پیز تک محدود رہے جس کے باعث چند کورونا وائرس کیسز کی تشخیص کے بعد دوسرے مرحلے میں اسکول کھولنے کا فیصلہ مؤخر کردیا گیا۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے کورونا سے بچائو کے حوالے سے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کو ماسک، ہینڈ سینیٹائزرز کی فراہمی صرف اعلان کی حد تک رہ گئی۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا اپنی مدد آپ کے تحت طلبہ ور اساتذہ کو ماسک اور دیگر سہولیات فراہم کرنا شروع کردی۔ کئی تعلیمی اداروں میں ایک ماہ گزرنے کے باوجود پانی کی نکاسی نہیں کی جاسکی۔ سندھ بھر کے تعلیمی اداروں میں 88 تدریسی و غیر تدریسی عملے کا کورونا مثبت آگیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں کوروناوبا کی با عث فروری کے آخر میں تعلیمی اداروں کو مکمل بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے جس کے بعد ماہ جولائی میں نجی تعلیمی اداروں میں ایڈمن اور اکاؤنٹ سے منسلک ملازمین کو جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ جس کے بعد8ستمبر کو ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو 3مرحلوں میں آغاز کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے تحت پہلے فیز میں کلاس نویں سے جامعات تک، دوسرے مرحلے میں 22 ستمبر سے کلاس 6 سے 8 تک جبکہ 28 ستمبر سے پری پرائمری اور پرائمری کلاسوں کو کھولا جائے گا۔ذرائع کے مطابق اس اعلان کے ساتھ وزیر تعلیم نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ اسکولوں کو ماسک، ہینڈ سینیٹائزرز اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لئے یونیسف، ڈبلیو ایچ او اور دیگر ادارے سامان کی فراہمی کررہے ہیں البتہ یہ ممکن نہیں کہ تمام اضلاع اور اسکولز میں یہ سامان میسر ہوسکے جبکہ جن اسکولوں میں ہاتھ دھونے کے لئے موبائل ہینڈ واش باتھ روم بھی فراہم کریں گے۔ تاہم یہ اعلان بس اعلان کی حد تک ہی رہا ۔ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر تعلیم کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا تھا کہاکہ اس حوالے سے ہم نے ان اسکولز کی ایس ایم سی فنڈز سے صرف کورونا کے حوالے سے سامان کی خریداری کی اجازت دی ہے۔جبکہ اگر سرکاری اعداد وشمار دیکھا جائے تو پرائمری اسکول کو20ہزار سے25ہزارروپے،ایلمنٹری کو سے 40 سے 50 ہزار روپے اور سکینڈری 70 ہزار سے ایک لاکھ تک جاری کیے جاتے ہیں۔ ایک پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے ہمیں کچھ بھی نہیں دیا گیاہے۔ہم تمام اساتذہ نے مل بانٹ کرماسک، ہینڈ سینیٹائزرز خرید کر اپنے اسکول میں رکھا ہے۔ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایس ایم سی فنڈ پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اکثر تعلیمی اداروںمیں پانی سمیت دیگر سہولیات کا فقدان ہے جس کے باعث ایس ایم سی فنڈ اس مد میں خرچ کردیا جاتا ہے۔ اور کئی تعلیمی اداروں میں ایس ایم سی فنڈ میں آنے والی رقم کئی سالوں سے آہی نہیں رہی ہے۔ذرائع کے مطابق سندھ کے 50 فیصد سے زائد سرکاری اسکول بنیادی سہولیات سے محروم ہیں،سندھ کے 28 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں میں بجلی کی سہولت ہی نہیں ہے جبکہ 20 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں میں واش روم ہی نہیں ہے۔ 22 ہزار سے زائد سرکاری اسکول پینے کے پانی کی سہولت سے محروم ہیں، صوبے کے 18 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں کی چار دیواری ٹوٹی ہوئی ہے یا سرے سے موجود ہی نہیں ہے، سندھ کے 40 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں میں لیبارٹری یا سائنس لیب اور بچوں کے پڑھنے کے لیے لائبریریموجود ہی نہیں ہے، 37 ہزار سرکاری اسکولوں میں طلباء کی صحت مندانہ نشوونما کے لیے کھیل کے میدان ہی نہیں ہیں۔ صرف صوبائی دارالحکومت کراچی میں 773 سرکاری اسکول بجلی سے محروم ، 663 سرکاری اسکولوں میں واش روم کی سہولت 978 سرکاری اسکولوں میں پینے کے پانی کی سہولت اور 317 سرکاری اسکولوں کی باؤنڈری وال ہی نہیں ہے۔کراچی کے تعلیمی اداروں میں 32 کیسزسمیت سندھ بھر میں 88 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے۔محکمہ صحت سندھ کی رپورٹ کے مطابق جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے 9 طالبعلموں ،آئی بی اے کے 9 عملے میں ،این جے وی اسکول کے 2 اساتذہ اور ایک طالبعلم میں ،ورلڈ اکیڈمی کے 3 اساتذہ ،پبلک ہیلتھ اسکول کے دو طالبعلموں میں ،جی جی ایس ٹی اسکول کے دو اساتذہ میں ،گورنمنٹ بوائز اینڈ گرلز سیکنڈری اسکول کے ایک فرد میں ،سیکرڈ ہارٹ اسکول جیکسن بازار کی پرنسپل،اے آر پی اسکول کے عملے میں3افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے۔ جامشورو کے تعلیمی اداروں میں 34 کیسز مثبت آئے۔مٹیاری میں 8، حیدرآباد میں 2، خیرپور میں 6 اور تھرپارکر میں 6 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے۔