اوورسیز پاکستانی، مٹی کی محبت کے اسیر

446

وزیر اعظم عمران خان کی کرکٹ اور سیاست کی زندگی کے دونوں ادوار میں تارکین وطن کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ کرکٹ کے ہیرو کے طور پر بیرونی دنیا میں آباد پاکستانیوں نے عمران خان کو ہیرو بنانے اور ہیرو کی طرح چاہنے کا بے مثال مظاہرہ کیا ہے اسی طرح ان کی سیاست کے لیے مالی اور عملی بنیادوں کی تعمیر میں بھی تارکین وطن کا کردار مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ اسی ربط وتعلق کی بنیاد پر عمران خان کی حکومت قائم ہوتے ہی بیرون ملک سے ٹیکنو کریٹس کی ایک یلغار سی ہوتی ہوئی نظر آئی۔ خود عمران خان نے بیرونی دنیا میں آباد ماہرین کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ جس پر ملک میں حزب اختلاف اور سوسائٹی کے دوسرے عناصر کی طرف سے اعتراضات سامنے آئے۔ بہت سے معاملات عدالتوں تک بھی جاپہنچے۔ اسی پس منظر میں عمران خان نے روشن ڈیجیٹل اکاونٹ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بیرون ملک آباد پاکستانیوں کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دوہری شہریت والے غدار نہیں یہ محب وطن لوگ ہیں۔ لوگ ان کے خلاف عدالتوں میں چلے جاتے ہیں ان کو عہدے دینے پر اعتراض کرتے ہیں۔ نوے لاکھ پاکستانی نوکریاں نہ ملنے پر باہر چلے گئے ان کے پیسے سے ملک چلتا ہے۔ ان کے لیے تعمیراتی شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں۔ اوورسیز پاکستانی ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔
عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس پر کسی قسم کی دو رائے موجود نہیں۔ اووسیز پاکستانی اسی دھرتی کا حصہ اسی قوم اور معاشرے کا جزو لاینفک ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں ہی میں اس ملک میں موجود افراد میں سے کسی کا بھائی تو کسی کا بیٹا اور رشتہ دار ہے۔ اس لیے حیرت کا مقام یہ ہے کہ بیرون ملک آباد پاکستانیوں کی ملک وقوم سے وفاداری کا سوال بار بار کیوں اُٹھتا ہے؟ اس کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں مگر اس سوال کا تعلق اوورسیز پاکستانیوں کی حب الوطنی اور وفاداری سے زیادہ سیاست سے ہے۔ بیرون ملک آباد پاکستانی ملک میں موجود آبادی سے زیادہ باشعور، سیاسی رموز سے زیادہ آشنا، پاکستان کے حال سے زیادہ باخبر اور اس کے مستقبل کے حوالے سے زیادہ حساس رہی ہے اور یہ کیفیت کئی نسلوں کے بعد شاید کسی حد تک کم تو ہوئی ہو مگرختم نہیں ہوئی۔ اوورسیز پاکستانیوں نے اپنی نئی نسل کو ملک سے جوڑے رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ مغربی ملکوں میں پیدا ہونے والے نوجوان ملک کے حالات پر اسی طرح کڑھتے ہیں جیسا کہ ترک وطن کرنے والے ان کے باپ دادا دیار غیر میں متفکر رہتے تھے۔ اس نسل کے دلوں میں بھی پاکستان کے حالات کو بدلنے کی خواہش اسی طرح موجزن ہے جو ان کے بزرگوں کا خواب ہوا کرتی تھی۔ ان کے ڈرائنگ روموں کی محفلوں میں آج بھی ملکی حالات اور سیاست اسی طرح گرما بحث کا موضوع بنتی ہے جیسا کہ اس پاکستان کے چوپالوں، دالانوں اور چائے خانوں میں معمول ہے۔ ملک کسی مشکل کا شکار ہو تو یہ تارکین وطن تڑپ اُٹھتے ہیں۔ قدرتی آفت وطن کو گھیر لے تو یہی اپنا دل اور مٹھی کھول کر اہل وطن کی امداد کو دوڑ پڑتے ہیں۔ ان میں بہت سے موت کی صورت میں وطن کی مٹی اوڑھ کر سوجانے کی وصیت کرتے ہیں۔ اسی وصیت کے مطابق زندگی بھر دیار غیر میں بسنے کمانے کھانے والے موت کے بعد تابوت میں بند ہو کر اپنے آبائی علاقوں میں لائے جاتے ہیں۔ پاکستان خوش ہوتا ہے تو یہ لوگ خوش ہوتے ہیں پاکستان مغموم اور ملول ہوتا ہے تو بیرونی ملکوں میںآباد یہ لوگ بھی رنجیدہ اور دکھی ہوتے ہیں۔ پاکستان کی جیت انہیں سربلند اور پاکستان کی شکست انہیں آنسوؤں سے رلاتی ہے۔
پاکستان کی سرزمین اور بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کے اس فطری اور ابدی تعلق کو نہ تو کمزور کیا جا سکتا ہے نہ توڑا جا سکتا ہے۔ یہ جسم اور روح کا تعلق ہے۔ ملک کے سیاسی لوگ باہر جائیں تو یہی لوگ ان کے لیے دیدہ ودل فرش راہ کرتے ہیں۔ 1998میں پہلی بار انگلستان جانے کا اتفاق ہوا تو اس بات کا قریب سے مشاہدہ ہوا کہ برطانیہ کے مختلف شہروں میں یہ تارکین وطن چھوٹے چھوٹے پاکستان بسائے بیٹھے ہیں۔ چار لوگ جس گھر، پارک یا ریستوران میں مل بیٹھیں تو ان کا موضوع سخن ’’پاکستان‘‘ ہوتا ہے۔ برطانیہ میں لاکھوں پاکستانی اور کشمیری تارکین وطن آباد ہیں۔ یہ اپنی زمین سے جڑے رہنے لیے اپنے خون پسینے کی کمائی سے اپنے آبائی علاقوں میں گھر تعمیر کرتے ہیں۔ بہت سوں کو ان گھروں میں رہنا بھی نصیب نہیں ہوتا مگر وہ اس مٹی کے ساتھ رابطے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لیے تارکین وطن کی حب الوطنی مجموعی طور پر نہ تو کسی سوال کا موضوع ہے نہ کسی انگلی کا ہدف اور اشارے کا مرکز۔ بس سیاست کے رنگ ہیں جو ان محب وطن لوگوں کو اس انداز سے زیربحث لاتے ہیں۔ سیاسی عہدوں پر ان کی تعیناتی کا معاملہ حب الوطنی پر سوال نہیں کہلا سکتا۔ یہ ایک اصول کا معاملہ ہے اور اسے اصول کی بنیاد پر ہی زیر بحث آنا چاہیے۔ دنیا کے تمام ملک بیرون ملک آباد ٹینکو کریٹس اور سرمایہ داروں کی خدمات اور وسائل سے استفادہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تجربہ مجموعی طور پر کامیاب نہیں رہا۔ معین قریشی اور شوکت عزیز کی مثالیں اس تجربے کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔ پاکستان نے ان دونوں کو بیرونی دنیا کی گمنامی کی وادیوں سے ڈھونڈ لایا اور وزرات عظمیٰ جیسا حساس منصب ان کے حوالے کیا مگر وہ اپنی نوکری سے ایک دن زیادہ بھی اس ملک میں گزارنے پر تیار نہ ہوئے۔ نوکری ختم ہوئی اپنا بریف کیس تھاما اور پہلی فلائٹ سے گھر کی اُڑان بھر لی اور دوبارہ انہیں اس ملک میں نہ دیکھا گیا جہاں انہوں نے نام کمایا اور مراعات پائی تھیں۔ بعد میں اس طرح کی مثالیں قائم ہوئیں۔ اس لیے اب حکومت کو بیرون ملک پاکستانیوں جن میں اکثر یت دوہری شہریت کی حامل ہوتی ہے کی خدمات سے استفادے کرنے کے لیے ایک اصول کو اپنانا چاہیے اور ناقدین کو اس معاملے کو مخالفت برائے مخالفت کے بجائے اصول کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔