لاہور زیادتی واقعہ

421

پنجاب پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ تین روز قبل لاہور رنگ روڈ پر ہونے والے اجتماعی زیادتی کے واقعے میں ملوث دو ملزمان کی عابد علی اور وقار الحسن کے ناموں سے شناخت ہو گئی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ پولیس نے 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ملزمان کی شناخت میں کامیابی حاصل کی ہے۔ آئی جی پنجاب انعام غنی کے مطابق پولیس کی تفتیشی ٹیم کو ایسے ثبوت ملے ہیں جن کی مدد سے پولیس ملزمان تک جلد پہنچ جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ خاتون نے خود بھی ملزمان کی کچھ شناخت ظاہر کی ہے جس کے بعد ملزمان کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔ واضح رہے کہ لاہور کے تھانہ گجرپورہ میں اس واقعے کی درج کروائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ گوجرانوالہ کے رہائشی درخواست دہندہ کی رشتے دار خاتون کی گاڑی کا جنگل کے قریب پٹرول ختم ہو گیا تھا اور وہ مدد کے انتظار میں کھڑی تھیںکہ اس دوران 30 سے 35 سال کی عمر کے دو مسلح اشخاص نے ان کی گاڑی کا شیشہ توڑ کر انہیں اور ان کے بچوں کو گاڑی سے نکال کر ان سے زیادتی کی اور ان سے نقدی اور زیور چھین کر فرار ہو گئے۔ ایف آئی آر کے مطابق خاتون سے زیادتی کا واقعہ رات تین بجے کے قریب پیش آیا اور متاثرہ خاتون کے رشتے دار نے بدھ کی صبح 10 بجے پولیس اسٹیشن گجر پورہ میں مقدمہ درج کروایا۔
موٹروے پولیس نے سوشل میڈیا پر موٹر وے پولیس کی زیر بحث واقعے میں سستی اور عدم تعاون کے بارے میں واضح کیا ہے کہ جس جگہ خاتون سے زیادتی کی گئی ہے وہ موٹروے پولیس کی حدود میں شامل نہیں ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ بننے والے اس گھنائونے واقعے کے بارے میں معلوم ہو اہے کہ گوجرانوالہ سے لاہور جانے والی فرانس پلٹ ایک خاتون کی گاڑی کا پٹرول لاہور سے پیچھے رنگ روڈ پر ختم ہو گیا تھا جس کے باعث ان کی گاڑی رک گئی جس پر اس خاتون نے پہلے 130 پرموٹر وے پولیس سے مدد کی درخواست کے لیے کال کی جس پر انہیں جواب ملا کہ یہ علاقہ چونکہ موٹروے کی حدود میں نہیں آتا اس لیے موٹر وے پولیس ان کی مدد سے قاصر ہے۔ موٹر وے پولیس جس کی کارکردگی اور مستعدی کے ہمارے ہاں بڑے چرچے ہیں اس واقعے میں اس کی بے حسی نے اس کی کارکردگی کا پول بھی کھول دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بالفرض جہاں اس بدقسمت خاتون کی گاڑی کا پٹرول ختم ہوا تھا موٹروے پولیس کی حدود میں نہیں بھی آتا توکیا انسانیت کے ناتے موٹر وے پولیس کی یہ اخلاقی ذمے داری نہیں بنتی تھی کہ وہ رات کے تین بجے ایک لاورث اور تنہا خاتون کی مدد پر لبیک کہتی یا پھر کم از کم قریب کے کسی متعلقہ پولیس اسٹیشن یا موبائل پولیس کو اس صورتحال سے آگاہ کرتی۔ پولیس کی جانب سے حدود کا عذر عام حالات میں تو قابل قبول ہوسکتا ہے لیکن جس صورتحال سے یہ بے بس خاتون دوچار تھی اس میں کوئی بھی باضمیر اورغیرت مند انسان اس کوتاہی اور بے حسی سے صرف نظر نہیں کرسکتا۔
کیا رات کے آخری پہر ایک سنسان سڑک پر اپنے معصوم بچوں کے ساتھ مدد کے لیے پکارنے والی خاتون کی مدد کے لیے یہ بات کافی نہیں تھی کہ وہ ایک نہتی پاکستانی خاتون تھی اور اسے اس وقت یقینا قانون کے رکھوالوں کی مدد کی ضرورت تھی جو اس کو حدود کا بہانہ بنا کر فراہم نہیں کی گئی۔ اگر موٹر وے پولیس تھوڑی سی سنجیدگی اور انسان دوستی کا مظاہرہ کرتی تو یہ اتنا بڑا حادثہ یقینا وقوع پزیر ہونے سے روکا جاسکتا تھا اس بے حسی پر یہ شعر سو فی صد صادق آتا ہے کہ حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا کہ لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر۔ پولیس کے دعوے کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں اور توقع ہے کہ جلد تمام ملزمان گرفتار کرلیے جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان ملزمان کو کیفر کردار تک بھی پہنچایا جا سکے گا۔ ہمارا فرسودہ عدالتی نظام اس خاتون اور اس کے کم سن بچوں کو انصاف دلاسکے گا۔ کیا ہماری کرپٹ اور بے حس پولیس خود کو اپنی غلامانہ ذہنیت کے چنگل سے نکال کر مصیبت زدوں کی داد رسی اور بغیر کسی لالچ اور دبائو کے محض انسانیت اور قانون کی حکمرانی کی سوچ کے تحت فرائض کی ادائیگی کو اپنا مشن بنا پائے گی۔ یہ بجا ہے کہ ان سوالات کا فوری جواب کسی کے پا س بھی نہیں ہے لیکن اگر اس خاتون اور ان بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان درندوں کو پکڑ کر اسی مقام پر لا کر شہریوں کی ایک بڑی تعداد جمع کر کے سنگسار کر دیا جائے تو اس سے اگر ایک طرف اس متاثرہ خاتون کو انصاف مل جائے گا تو دوسری جانب اس خاتون کے معصوم بچوں نے اگر ریاست اور قانون کی بے بسی اور انسانیت کی بے حسی کی چیخیں سنی ہیں تو ان درندہ صفت مجرموںکی چیخ و پکار اور ان کی لٹکتی ہوئی لاشیں دیکھنا بھی ان کا حق ہے لہٰذا دیکھتے ہیں کہ ان ظالموں کو ریاست مدینہ میں ان کے لیے کی سزا کب اور کیسے ملتی ہے۔