اسلامی سزاؤں ہی میں خیر ہے

1134

سانحہ موٹر وے کے باعث پوری قوم اب تک غم وغصے کا شکار ہے۔ اس کی بڑی وجہ ملک میں اس قسم کے واقعات میں اضافے کا غیرمعمولی رجحان اور ان کے ارتکاب کی نوعیتوں کا بد سے بدتر ہونا ہے۔ یہ صورت حال جہاں ایک طرف وطن عزیز میں اخلاقی گراوٹ اور اسلامی ومشرقی روایات سے انحراف میں تیزی کا پتا دیتی ہے، وہیں موجودہ حکومت کی ناکامیوں کی طویل داستان میں ایک اور سیاہ صفحے کا اضافہ کرتی نظر آتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جرائم اسی وقت بڑھتے ہیں، جب قانون کی گرفت کمزور پڑتی ہے اور بدفطرت یا اخلاقی طور پر گرے ہوئے لوگوں کو اپنی ان نفسیانی خواہشات کو پورا کرنے کا موقع ملنا شروع ہو جاتا ہے، جن کا ارتکاب کسی مضبوط ومستحکم اقتدار میں ممکن نہیں ہوتا۔ سانحہ موٹر وے بھی اسی انتظامی کمزوری کا بھانڈا پھوڑ رہا ہے، بلکہ وزیراعظم عمران خان کم از کم پنجاب میں اپنی ناکامی کا خود ہی اعتراف کرتے دکھائی دے رہے ہیں، تاہم ان کے اس بیان پر روشنی ڈالنے کے بجائے جنسی جرائم کے مرتکب افراد کو نامرد بنانے سے متعلق ان کی گزارشات کو زیربحث لانا زیادہ مناسب ہے۔ وزیراعظم نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ عصمت دری کے واقعات میں ملوث افراد جیل سے باہر آکر پھر وہی کام کرتے ہیں۔ اس لیے ایسے لوگوں کا آپریشن یعنی سرجری کرکے انہیں ناکارہ بنا دینا چاہیے، تاکہ وہ آیندہ ایسی حرکت نہ کر سکیں۔ ایک اسلامی ملک کے سربراہ کا یہ بیان حدود اللہ سے تجاوز معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ شریعت میں ایسے جرائم سے متعلق سزائیں متعین ہیں۔ اسلام کسی بھی ایسی سزا کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، جس کے ذریعے جرائم کا راستہ نہیں رکتا۔ ظاہر ہے کہ زیادتی کے مجرم کو نامرد بنانے کی سرجری کھلے عام تو کی نہیں جائے گی، اس لیے لوگ کیسے عبرت پکڑیں گے۔ ویسے بھی اسلام میں کسی کو نامرد بنانا مطلق حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع فرمانے کے باعث علما نے کسی صورت اس کی اجازت نہیں دی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم اس تناظر میں رجم اور کوڑوں کی سزا کی اہمیت اجاگر کرتے، لیکن معلوم نہیں کہ کیا عوامل مانع آئے کہ انہوں نے ان اسلامی سزاؤں کا تذکرہ کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ کیا انہیں ایسے بیان پر مغربی دنیا کے ردعمل کا خوف تھا؟ بلکہ انہوں نے پہلے سرعام پھانسی کی بات کی، لیکن پھر فوراً ہی مجرموں کو نامرد کرنے کا آپشن پیش کردیا، جس سے یہ تاثر ملا کہ وہ کسی خوف کے باعث سرعام پھانسی سے متعلق اپنے اولین بیان سے یوٹرن لے رہے ہیں۔ حالاں کہ وہ تو ریاست مدینہ کی مالا جپتے ہوئے کرسی اقتدار پر براجمان ہوئے تھے اور عوام کو سال بھر پہلی اسلامی حکومت کی جانب سفر کا جھانسا دیتے رہے۔ اگرچہ انہوں نے ان 2 برسوں میں اس جانب ذرہ برابر پیش رفت نہیں کی، لیکن اپنے اس بیان میں تو کم از کم اسلامی تعلیمات کی پاسداری کرسکتے تھے۔ ویسے بھی حاکم وقت کو اپنے قول وفعل میں انتہائی محتاط ہونا چاہیے، خاص طور پر اسلامی بنیادوں پر حاصل کیے گئے اس ملک میں دینی معاملات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ اس قسم کے معاملات سے متعلق قرآن وسنت کا حکم جاننے کے لیے ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل جیسا ادارہ بھی موجود ہے، لیکن شاید وزیراعظم بھی اسے اپنے پیش روؤں کی طرح ناقابل التفات سمجھتے ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ وزیراعظم کو پھانسی سے زیادہ اپنے لفظ ’’سرعام‘‘ پر تنبیہ ہوئی ہے، کیوں کہ سزائے موت آج بھی امریکا سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں رائج ہے۔ البتہ کسی مجرم کو سرعام سزا دینے کا رواج سعودی عرب یا چند عرب ممالک ہی میں ہے اور بین الاقوامی طاقتیں، انسانی حقوق تنظیمیں اور ذرائع ابلاغ ایسے اسلامی ممالک کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اس کے برخلاف سرعام پھانسی دینے والے ممالک میں امن وامان کی صورت حال اور جرائم کی شرح تنقید کرنے والوں کے ممالک سے کم ہے۔ اس لیے وزیراعظم عمران خان کو مغربی دباؤ کی پروا کرنے کے بجائے حقیقت پر مشتمل اپنے بیان پر قائم رہنا چاہیے تھا۔ سرعام سزا دینے سے معاشرے کو جو عبرت ملتی ہے، وہ جیل کی اونچی فصیلوں کے پیچھے سولی پر لٹکانے سے نہیں ملتی۔ سانحہ موٹر وے پر وزیراعظم کی یہ کمزوری ہی سامنے نہیں آئی، بلکہ اس کی آڑ میں وطن عزیز میں بیرونی ایجنڈے کے لیے کام کرنے والے بھی سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ مختلف نام نہاد سماجی تنظیمیں اور کارکن اس غیرانسانی جرم کے ارتکاب کے خلاف احتجاج کی آڑ میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سانحہ موٹر وے انتہائی افسوس ناک اور قابل گرفت واقعہ ہے، لیکن اس جرم کے خلاف مظاہروں میں اخلاق کا جنازہ نکالنا اور انتہائی شرم ناک نعروں پر مشتمل بینر اٹھا کر سڑکوں پر آنا بھی سخت نامناسب ہے۔ ان نعروں میں کئی ایسے ہیں، جو ہماری اسلامی اور مشرقی ثقافت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جس طرح مختلف پہلوؤں سے آزادی اظہار کو محدود کرتی ہے، اس معاملے میں بھی کچھ نظر کرم کرے۔ وطن عزیر کی سڑکوں پر بیٹیوں ہی کو بے آبرو نہیں کیا جا رہا، بلکہ شعائر اسلام کی توہین بھی کی جا رہی ہے۔ حکومت اس معاملے میں کوئی دباؤ محسوس نہیں کررہی، تو دینی غیرت ہی کا مظاہرہ کرلے۔