ججوں کی آزادی اور بیرونی دبائو

553

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب گلزار احمد نے کہا ہے کہ جب تک ججز آزاد اور بیرونی دبائو سے بالاتر نہیں ہوں گے اس وقت تک انصاف ممکن نہیں۔ ایک جگہ یہ خبر بھی شائع ہوئی ہے کہ دبائو میں انصاف ممکن نہیں۔ آئین کی بالادستی یقینی بنائیں گے۔ یہ ریمارکس بڑے معنی خیز اور تشویشناک ہیں۔ اعلیٰ ترین عدلیہ کے سربراہ بتا رہے ہیں کہ جب تک جج آزاد نہیں ہوں گے اور بیرونی دبائو سے بالاتر نہیں ہوں گے تو انصاف ممکن نہیں۔ وہ یہ بھی بتا دیتے کہ جج کون سے بیرونی دبائو میں ہیں اور وہ کون سا طریقہ ہوگا کہ جج آزاد بھی نہ ہوں بیرونی دبائو بھی ہو اور عدالت عظمیٰ آئین کی بالادستی یقینی بنائے گی کسی کو عدلیہ کی آزادی دبانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا سربراہ عدالتی سال کے آغاز پر ہونے والی تقریب میں یہ باتیں کرتا ہے تو عام آدمی تو یہ سن کر ہی تشویش میں مبتلا ہو جائے گا۔ یہ بات بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ ججوں پر کون سا بیرونی دبائو ہے یقیناً یہ بیرونی دبائو بیرون ملک سے نہیں آتا بلکہ عدلیہ کے باہر سے آتا ہے۔ لوگ رفتہ رفتہ اسلام آباد و ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے کیس کو بھول رہے تھے کہ چیف جسٹس نے پھر یاد دلا دیا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی یہی بات کر رہے تھے انہوں نے اداروں کے نام لے لیے تھے لیکن چیف جسٹس نے نام نہیں لیا۔ تاہم کچھ تو ہے جس کا کسی نہ کسی حلقے سے موقع بہ موقع ذکر ہوتا رہتا ہے۔ اگر عدلیہ پر بیرونی دبائو ہو اور جج آزاد نہ ہوں تو انصاف واقعی مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں تو مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے معاملات عدالتوں میں برسہا برس چلتے ہیں جن میں ججوں کے آزاد ہونے یا بیرونی دبائو کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ جب انصاف میں اتنی زیادہ تاخیر ہوگی تو اس سے بڑی ناانصافی کیا ہوگی۔ آج کل کے اخبارات اٹھائیں خبر ملے گی۔ ارشد پپو کیس میں شہادتیں، نقیب اللہ قتل کیس رپورٹ طلب، ائرپورٹ حملہ کیس، آشیانہ ہائوسنگ کیس، لال مسجد بندش کیس، سانحہ صفورہ وغیرہ کے نام سے کچھ نہ کچھ ہوگا۔ لوگوں کو یاد نہیں کہ کون سا کیس کس کس وجہ سے چل رہا ہے تو کیا ان کیسوں میں غیر ضروری طوالت بھی اسی لیے ہے کہ ان میں بھی بیرونی دبائو ہے اور جج آزاد نہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو چیف جسٹس اپنی بقیہ مدت تک کے لیے ملک بھر کے تمام کیسز کی سماعت روک دیں اور اس دوران ججوں اور عدلیہ کو آزاد کرانے کی جدوجہد کریں۔ وہ خود کہہ چکے ہیں کہ ایسا نہ کیا تو انصاف ممکن نہیں۔