نقطہ نظر

201

 

سانحہ موٹروے پر اٹھنے والے سوالات
نیٹ سرچنگ کے دوران دیکھے جانے والے فحش مناظر عمل پر اکساتے ہیں اور ہوس کو بھڑکانے والی یہ آگ انسان کو درندوں سے بھی بدتر بننے پر مجبور کر دیتی ہے۔ بچے بچے کے ہاتھ میں اسمارٹ فون موجود ہے۔ فحش ڈرامے اور فحش اشتہارات، فحش لٹریچر اور مواد جو سوشل میڈیا پر ہر وقت آنکھوں کے سامنے موجود رہتا ہے آپ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ان سب کا ذمے دار کون؟؟ جب اس طرح کے سانحات رونما ہوتے ہیں تو چار دن تک ٹی وی اور سوشل میڈیا پر بحث شروع رہتی ہے اب تو حال یہ ہے کہ ہر دن ایک نیا واقعہ ایک نیا سانحہ رونما ہو رہا ہے۔ کیا، کیوں، کون، کب اور کیسے؟؟ سے نکل کر اس طرف آنا چاہیے کہ آیا ان سانحات کے رونما ہونے کی اسباب کیا ہیں اور سدباب کے لیے کون سے اقدامات ہو سکتے ہیں۔
جب الیکٹرونک میڈیا پر اس طرح کے مواد نشر کرنے پر پابندی کی بات ہوتی ہے تو لبرل سوچ رکھنے والوں کے پیٹ میں مروڑ شروع ہوجاتا ہے۔ مرد اور عورت کے کام کے دائرہ کار الگ الگ ہونے پر بات کی جائے تو وہ حقوقِ نسواں کے علم بردار کھڑے ہو جاتے ہیں۔
موٹروے کے سانحہ پر لوگوں کی زبانیں چلیں تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اسلام میں آدھی رات کو عورت کے گھر سے نکلنے کو منع کیا گیا ہے۔ اسلام اور کن کن باتوں کو منع کرتا ہے ذرا تسلی سے ٹھیر کر ہم نے اس بات پر سوچا؟؟ ہمارے ملک میں الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذریعے نئی نسل کو کس دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے؟؟ کیا ایسے لوگوں کو سرعام پھانسی نہیں دینی چاہیے؟؟ کیا مستقل بنیادوں پر تمام ذرائع ابلاغ پر فحش مواد پر پابندی نہیں لگادینی چاہیے؟؟ ایسے لوگوں کو چوکوں اور چوراہوں پر نہیں لٹکا دینا چاہیے جو خواتین کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی عزتوں کو تار تار کر دیتے ہیں؟؟ ہر سطح کے تعلیمی اداروں سے مخلوط تعلیم ختم کی جائے اور بنیادی اداروں میں بحیثیت ماں اپنی بیٹیوں اور خصوصاً اپنے بیٹوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ آج مستقل بنیادوں پر اسلامی اصولوں کے مطابق معاشرے کی تعمیر نہ کی گئی تو مستقبل میں اور بھی خوفناک نتائج کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
صائمہ عبد الواحد، کراچی