امریکی عالمی قیادت خطرے میں؟

307

سمیع اللہ ملک
کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عالمی بحران کے سیاسی اورسفارتی اثرات سامنے آناشروع ہوچکے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں صحتِ عامہ بنیادی مسئلے کی صورت اختیار کر چکا ہے اور کوروناکے ہاتھوں پیداہونے والے بحران نے دنیاکی قیادت کے حوالے سے امریکاکی پوزیشن غیر معمولی حد تک کمزورکردی ہے۔ 1956ء میں جب نہر سوئز کا معاملہ کھڑا ہوا تھا تب امریکانے مداخلت کی توبرطانیہ کی عالمی قائدکی حیثیت عملاًاختتام کو پہنچی۔ آج امریکی پالیسی سازبری طرح پریشان ہیں کہ اگرانہوں نے صورتِ حال کے تمام تقاضوں کونبھاتے ہوئے موزوں پالیسیاں اختیارنہ کیں توکوروناکی صورت میں امریکا کے لیے ’’سوئز موومنٹ ‘‘سے بچنا ناممکن ہوگا۔
کوروناکے حوالے سے امریکی قیادت کاابتدائی رویہ خاصا بدحواسی پرمبنی رہا۔ایوانِ صدر،محکمہ خارجہ،محکمہ داخلی سلامتی اور سینٹرفار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے جوکچھ کہا اورکیا،وہ ناکافی ہی نہیں بلکہ صورتِ حال کے تقاضوں کے برعکس تھا۔ٹرمپ انتظامیہ نے جوپالیسی اختیارکی اس پرعوام نے ذرابھی اعتبارنہیں کیا۔ ایوانِ صدرسے باضابطہ طورپر یا پھر علی الصبح ٹوئٹس کے ذریعے ٹرمپ جوبیانات داغتے رہے، ان سے معاملات میں ابہام پیداہوا اور نتیجتاً لوگ بدحواس ہوئے۔ سرکاری اور نجی ادارے ناکامی سے دوچارہوئے جس سے لوگوں کااپنی قیادت پراعتبارواعتمادمزیدکم ہوگیا۔ کچھ ہی دنوں میں یہ بات واضح طورپرسامنے آگئی کہ کوروناجیسی کسی بھی عالمگیرنوعیت کی وباسے نمٹنے کی صلاحیت امریکامیں نہیں۔ ٹرمپ نے ہرمعاملے میں تنہا جانے یعنی کسی سے مشاورت کے بغیربہت کچھ کرنے کی جوروش اختیارکی ہے،وہ کسی بھی اعتبارسے قابلِ ستائش نہیں۔یہ ثابت ہوگیاکہ کوروناسے نمٹنے کے حوالے سے امریکابہت ہی کم تیاری کی حالت میں ہے۔
سات عشروں تک امریکانے دنیاکوعسکری اورمعاشی طاقت کی مددسے چلایا ہی مگر معاملہ صرف یہاں تک محدودنہیں رہا۔ امریکی پالیسی سازوں نے اندرون ملک بھی بہترطرزِحکمرانی یقینی بنائی۔ صحتِ عامہ کامعیاربھی بلندرہا،سماجی تحفظ کاشعبہ بھی قابل رشک رہا لیکن کورونانے جب امریکاکی صلاحیتوں کاامتحان لیاتواس حقیقت کوتسلیم کرناپڑاکہ اس ٹیسٹ میں امریکااب تک ناکام دکھائی دیا ہے۔ کسی بھی عالمگیروباکے حوالے سے امریکاکوجس نوعیت کاردِعمل دیناچاہیے تھاوہ اس نے نہیں دیا۔عالمگیروباکے حوالے سے امریکانے جو خلاچھوڑا، وہ چین نے پُرکرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ چین اس بحران میں باقی دنیا سے الگ تھلگ کھڑاہے۔وہ خاصامضبوط ہوکرابھراہے۔اس نے اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے ساتھ دوسروں کی مددکرنے پربھی توجہ دی ہے۔اس حوالے سے اس کی قائدانہ حیثیت ابھرکرسامنے آئی ہے۔اب تک یہی کہاجاتارہاہے کہ کوروناچین کی نااہلی یا لاپروائی سے پھیلا۔چینی قیادت سمجھتی ہے کہ قائدانہ کردارکے حوالے سے فیصلہ کن اقدامات کرنے کاوقت یہی ہے۔ دوسری طرف کوروناسے نمٹنے کے معاملے میں امریکاکی مکمل نااہلی نے عالمی سطح پراس کی قائدانہ حیثیت کو خاصا متاثر کیا ہے اوریوں اکیسویں صدی میں عالمی قیادت کے حوالے سے جاری مسابقت کی نوعیت بھی بدلتی دکھائی دے رہی ہے۔
کوروناکی وباپھوٹنے کے ابتدائی مرحلے میں چین پرغیرمعمولی دباؤ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نومبرمیں ووہان شہرمیں یہ وباپھوٹی تھی مگر تب اس معاملے کودبا دیا گیا تھا۔ جن ڈاکٹروں نے نشاندہی کی تھی انہیں سزادی گئی۔ اس کے بعد 5 ہفتے یوں ہی گزرنے دیے گئے، اور یوں معاملہ بگڑ گیا۔ لوگوں کوتیارکرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سفرکی بندش اورٹیسٹنگ وغیرہ میں تاخیرکا ارتکاب کیا گیا۔ جب یہ وبا زورپکڑگئی تب بھی اِسے دبانے اورچھپانے کی کوشش کی گئی۔ عالمی ادارہ صحت کے حکام کو ووہان نہیں جانے دیاگیا۔ سینٹرفار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن سے اشتراکِ عمل کی زحمت بھی گوارانہیں کی گئی۔ جنوری اورفروری کے دوران ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ شایدکوروناکی وباکے ہاتھوں چینی کمیونسٹ پارٹی کی پوزیشن کمزورپڑ جائے۔ ڈاکٹر لی وین لیانگ ’’وسل بلوئر‘‘‘ تھا یعنی اسی نے کوروناوباکے پھوٹ پڑنے کی نشاندہی کی تھی، تاہم بعدمیں وہ خود بھی کوروناکاشکارہوکرچل بسا۔
مارچ کے اوائل میں ایران کے شہرقم میں یہ وباپھوٹ پڑی۔ تب قرنطینہ کاسلسلہ شروع ہوااوربین الاقوامی سفرپربھی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ ملک گیرشٹ ڈاؤن اورلاک ڈاؤن کاسلسلہ شروع ہوا۔ حیرت انگیزبات یہ ہے کہ مارچ کے وسط میں چین میں کوروناکے مریضوں کی تعدادمیں یومیہ اضافہ سنگل ڈیجٹ میں آگیایعنی 10 سے کم رہ گیاجبکہ فروری کے دوران کوروناکے مریضوں کی تعداد میں یومیہ سیکڑوں کا اضافہ ہورہاتھا۔
چین کے صدر شی جن پنگ ابتدائی مرحلے میں الگ تھلگ رہے۔ پھر جب معاملات کچھ درست ہوئے تو انہوں نے اپنے آپ کو نمایاں کیا اور ووہان کا دورہ بھی کیا۔ چین نے میڈیا کو عمدگی سے استعمال کیا ہے۔ دنیا کو یقین دلایاگیا ہے کہ چین نے اندرونی معاملات بہت اچھی طرح نمٹائے ہیں یعنی مرض کو نہ صرف یہ کہ پھیلنے نہیں دیا بلکہ مریضوں کو صحت سے ہم کنار کرنے پر بھی خاطر خواہ توجہ دی۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے کہا ہے کہ چین نے ثابت کردیا کہ وہ کسی بھی عالمگیر وبا سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت و سکت رکھتا ہے۔ مرکزی حکومت نے معلومات کے بہاؤ پر سخت کنٹرول رکھا۔ ہر مخالف بیانیہ دبوچ لیا گیا یا پھر مسترد کردیا گیا۔
کوروناکی روک تھام کے حوالے سے مغرب کاروّیہ بھی نیم دلانہ رہا ہے۔ کوششیں بظاہر تیاری کے بغیر کی گئیں اورناکام رہیں۔ جس کے نتیجے میں چین کادرجہ بلند ہوا۔ امریکامیں ٹیسٹنگ کٹس کامعاملہ خطرناک اندازسے ابھرا، جس کے نتیجے میں عوام کاحکومت پراعتمادمزیدکم ہوگیا۔ اس صورتِ حال سے چین نے بھرپورفائدہ اٹھایا۔دنیاکویقین دلایاگیاکہ امریکانااہل ہے، سپرپاورہونے کے باوجوداس وباسے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی نااہلی اوربدحواسی کوچین کے سرکاری خبررساں ادارے ’’شنہوا‘‘ نے نمایاں کرکے دنیاکے سامنے رکھا۔ واشنگٹن کی سیاسی اشرافیہ کوبالخصوص ہدف بنایا گیا۔ دنیا کو یقین دلایا گیا کہ کورونا چین سے نہیں پھیلابلکہ چین میں بھی امریکی فوجیوں کے ایک دستے نے پھیلایا۔ امریکا کی پوزیشن خاصی کمزورہوچکی تھی اور پھر رہی سہی کسرچین سے سرکردہ امریکی اخبارات کے نمایندوں کے اخراج نے پوری کردی۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے چندبرس کے دوران عالمی سطح پرمختلف ضروری اشیاکی فراہمی کے حوالے سے چین کی پوزیشن مستحکم کرنے پرغیرمعمولی توجہ دی ہے۔ انہوں نے چین کوعالمی امورمیں قائدانہ کردار دلوانے کے حوالے سے بھی سوچناشروع کردیاہے۔اس حوالے سے لائحہ عمل تیارکیاجارہاہے۔دنیاکی قیادت کرنے کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے میکنزم کوکلیدی کردارادا کرنے کی راہ ہموارکی جاتی رہی ہے۔ کورونا نے کام مزیدآسان کردیا۔ چین کوابتدائی مرحلے میں بڑے پیمانے پر ماسک، ٹیسٹنگ کٹس، وینٹی لیٹراور دواؤں کوفوری طورپرکئی ممالک سے خریدکراپنے ہاں کوروناکی روک تھام کی۔ اب وہ یہی ساری چیزیں پوری دنیاکوفراہم کررہاہے۔
کوروناکے پھیلنے پریورپ میں سب سے زیادہ متاثر اٹلی ہوا۔ اٹلی کاصحتِ عامہ کانظام ایک ہی جھٹکے میں جواب دے گیا۔ اطالوی حکومت کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آسکاکہ ہوکیارہاہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ یوں مرنے لگے گویادرخت سے پتے جھڑرہے ہوں۔ان میں نمایاں تعدادمعمرافرادکی تھی۔ جب وبا نے پرپھیلائے توصحتِ عامہ کے میکنزم نے پلک جھپکتے میں دم توڑدیا۔ اٹلی کی مدد کے لیے چین آگے بڑھا۔ اس نے ایک لاکھ ریسپیریٹر، 2 لاکھ ماسک، ایک ہزاروینٹی لیٹر، 50 ہزارٹیسٹنگ کٹس اور 20 ہزار سوٹ بھجوائے۔ ایران کے لیے بھی چین نے ڈھائی لاکھ ماسک کااہتمام کیااورایک میڈیکل ٹیم بھی بھیجی۔ یورپ میں کوروناکے ہاتھوں اُبھرنے والی صورتِ حال سے تنگ آکر سربیا کے صدرنے کہاکہ یورپی امداد پریوں کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ ایسے میں کوئی مدد کرسکتاہے توصرف چین ہے۔ چین کی معروف کوریئرکمپنی علی باباکے سربراہ جیک مانے امریکا کے لیے بھی ماسک اورٹیسٹنگ کٹس بھجوانے کااہتمام کیا۔ بات یہیں پرختم نہیں ہوجاتی۔ جیک مانے افریقا کے 54 ممالک میں سے ہرایک کے لیے ایک لاکھ ماسک اور 20 ہزارٹیسٹنگ کٹس بھجوانے کااعلان کر کے افریقی ممالک کے دل جیت لیے۔
اس وقت کیفیت یہ ہے کہ کوروناسے لڑنے کے لیے دنیاکوسامان کے حوالے سے توچین ہی پرانحصارکرناپڑ ے گا۔ جب چین میں وبا پھیلی تب اس نے دنیابھرسے ماسک منگوالیے تھے۔اب چین میں ماسک، ٹیسٹنگ کٹس، ریسپیریٹر اور دوسری بہت سی اشیابہت بڑے پیمانے پرتیارکی جارہی ہیں۔اس وقت دنیابھرمیں جتنے ریسپیریٹراستعمال کیے جارہے ہیں ان کانصف چین سے آیا ہے۔ چین میں لگائی گئی غیرملکی فیکٹریوں کوبھی پابندکیاجارہاہے کہ کوروناسے نمٹنے کے حوالے بنائی جانے والی اشیاچینی حکومت کو فروخت کرے۔ میڈیکل سپلائیز کو چین نے خارجہ پالیسی پرعمل کرنے کے ایک موثرآلہ کارکے طورپربروئے کارلاناسیکھ لیاہے۔ ثانوی نوعیت کے انفیکشن کی دواؤں اوراینٹی بایوٹکس کے حوالے سے بھی چین خاصی فایدہ مند پوزیشن میں ہے۔
امریکاکی حالت بہت خراب ہے۔ وہ شدیدبحرانی کیفیت سے دوچار ہو چکا ہے۔ کورونا کی وباپھیلنے کے آغاز ہی میں امریکی قیادت کا ردِعمل غیر موزوں تھا۔ امریکاکی اسٹریٹجک نیشل اسٹاک پائل کاحال بہت برا ہے۔ ملک میں اس وقت جتنے ماسک درکارہیں ان کاصرف ایک فیصد دستیاب ہے۔ اس وقت امریکا میں ضرورت کے لحاظ سے صرف 10 فیصد وینٹی لیٹراور ایک فیصدماسک دستیاب ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگاناکسی طوردشوارنہیں کہ کسی بہت بڑی بحرانی کیفیت کاسامناکرنے کے لیے سپر پاورکوجس قدرتیار رہناچاہیے اس کا عشرعشیر بھی ممکن نہ ہوسکا۔ کوروناسے بہ طریق احسن نمٹنے کے لیے امریکاکوجوکچھ درکار ہے وہ چین سے منگواناپڑرہاہے کیونکہ اس وقت امریکامیں اینٹی بایوٹکس کی مارکیٹ کا 95 فیصد چین کے ہاتھ میں ہے۔
2014ء میں امریکانے افریقاسے پھیلنے والے ایبولاوائرس کی روک تھام کے حوالے سے 12 ممالک کے ساتھ مل کرکام کیاتھا۔اس بارایساکچھ دکھائی نہیں دے رہا۔امریکانے اتحادیوں کوبھی ایک طرف ہٹادیاہے۔ جب کوروناکے پھیلاؤنے عالمگیروباکی شکل اختیار کی تب امریکی قیادت نے یورپ میں اپنے اتحادیوں کوبھی اعتمادمیں لینامناسب نہ سمجھا اورسفرپرپابندیاں عائدکرنے سے قبل چین کومطلع کرنے کی بھی زحمت گوارانہیں کی۔
ایسا نہیں کہ چین نے اپنے ہاں کورونا پر بہت حدتک قابو پانے کے بعدسکون کاسانس لے کر دوسروں کونظراندازکردیا۔ وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے درجنوں ممالک کے ہزاروں حکام کواعتمادمیں لیا گیا۔ کورونا میں مبتلا افراد کے علاج اوراس وباکے پھیلاؤکی روک تھام کے حوالے سے بہت سے مشوروں سے ان تمام ممالک کو نوازا گیا، جوشدیدبحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اس معاملے میں چین نے روایتی علاقائی سوچ اپنائی ہے۔ وسطی ایشیا، مشرقی یورپ اور بحرالکاہل کے جزائر پر مشتمل ریاستوں کواوران کے علاوہ افریقاکو مشورے ہی نہیں سامان بھی دیا گیا۔ چین نے جوکچھ بھی کہا، اس کے بارے میں دنیاکوبتانابھی ضروری سمجھایعنی میڈیاکابھرپور سہارالیاگیا۔
چین نے ایک عالمگیروباسے نمٹنے کے حوالے سے غیرمعمولی مہارت کامظاہرہ کرکے باقی دنیاکوکسی حدتک مسحور کیا ہے۔ اس نے ثابت کیاہے کہ اس کے پاس معلومات بھی کم نہیں اورمہارت کابھی حساب نہیں۔ تمام اہم معاملات پراس کی توجہ ہے۔ اس نے برتری ثابت کرتے ہوئے قائدانہ کرداراداکرنے کوہدف بنایا ہے۔ چین طاقتورہے مگراِس سے بڑھ کریہ بات اہم ہے کہ اس وقت امریکا کمزور ہے۔ نااہلی نے اس کی کمزوریوں کومزیدپھیلایاہی نہیں بلکہ اجاگربھی کیا ہے۔ امریکی پالیسیوں میں سب سے زیادہ اہمیت اندرونی معاملات کودی جارہی ہے۔ باقی دنیاکامفادبہت حدتک نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اگر امریکی قیادت اپنی قائدانہ حیثیت کوبہت حدتک برقراررکھناچاہتی ہے تولازم ہے کہ ایک طرف تووہ اپنے اندرونی معاملات کودرست کرے اوردوسری طرف کوروناسمیت کسی بھی وباسے نمٹنے سے متعلق سپلائیزکی دستیابی یقینی بنائے۔ فی الحال ایساممکن دکھائی نہیں دیتا۔ امریکامیں اندرونی خرابیاں بہت زیادہ ہیں۔ صحتِ عامہ کامعاملہ پہلے ہی بہت خراب تھا، اب رہی سہی کسر پوری ہوگئی ہے۔
کورونا کا پھیلاؤ روکنا اور علاج ممکن بنانااولین ترجیح کادرجہ رکھتا ہے۔ سیاست بہت بعدکامعاملہ ہے۔ اس وقت جوکچھ بھی کیاجائے گااس کے غیرمعمولی اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکا میڈیکل سپلائیز بڑھانے میں ناکام ہوگیاہے۔کوروناسمیت بہت سی وباؤں کے حوالے سے امریکاتحقیق اوردواؤں کی تیاری کے میدان میں قائدانہ کردار ادانہیں کرسکا۔ اس حوالے عالمگیرسطح پررابطہ کاری کی بہت اہمیت ہے۔ کوئی بھی ملک سب کچھ اپنے طورپرنہیں کرسکتا۔ امریکا کو بھی یہ بات سمجھنی ہے کہ چین اوردیگرطاقتور ممالک کے اشتراکِ عمل ہی سے دنیاکومحفوظ رکھنے میں کچھ مددمل سکتی ہے۔سفراورمعلومات کے تبادلے کے حوالے سے مکمل ہم آہنگی کاپایاجانالازم ہے۔ امریکا نے عشروں تک قائدانہ کردارادا کیامگراب تحقیق کے حوالے سے قائدانہ کردارادا کرنے سے محرومی کامنہ دیکھناپڑگیاہے۔
کوروناکے حوالے سے کس نے کیاکِیا، یہ بعدکی بحث ہے۔ امریکا اور چین کواب مل کرکچھ کرنا چاہیے تاکہ دنیامیں کوئی بھی ایسی وبانہ پھیلے جومعیشت اورمعاشرت دونوں کاتیاپانچہ کردے۔ انہیں آپس کے معاملات مزیدالجھانے کے بجائے سلجھانے پرمتوجہ ہونا پڑے گا۔ دونوں کوپوری دنیاکے فائدے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ سوال ویکسین کی تیاری کا ہے۔ معیشتوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انہیں اپنے پیروں پردوبارہ کھڑے ہونے کے لیے مالیاتی پیکیج درکارہوں گے۔ اِسی صورت کمزور ممالک کا بھی بھلا ہو سکتا ہے۔ کورونا ’’ویک اپ کال‘‘ ہے۔ خطرے کی اس گھنٹی کو سمجھنا ہوگا۔ ماحول کاتحفظ یقینی بنانے کے حوالے سے بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرامریکاتھوڑاساجھک جائے اورچین کے ساتھ مل کرچلے تو امریکی قیادت کے اعتماد کا گراف بھی بلند ہوگا لیکن مودی کو استعمال کرکے چین کو نقصان پہنچانے کی ٹرمپ پالیسی خود بھارت اور امریکا کو برباد کردے گی۔