بادشاہ بن کر کام کرنے والے وزیراعظم آج نیب کو بھگت رہے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

361

اسلام آباد (صباح نیوز+مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیلنگ کلب کیس میں ریمارکس دیے ہیں بادشاہ بن فیصلے کرنے والے وزیراعظم آج نیب بھگت رہے ہیں کچھ وزرائے اعظم اندر تو کچھ کیسز بھگت رہے ہیں،بحریہ کا کام ملک کا دفاع ہے، چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے پوچھا کہ پہلے یہ بتائیں کھوکھے والے کے لیے یہ آئینی عدالت کیا کرے؟ کیا ہم یہ کہیں کہ ان کو ریگولرائز کر دیں اور کھوکھے والے کا کوئی حق نہیں؟ نیوی کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے، سلینگ یا کلب بنانے کا رول کہاں ہے؟۔قانون میں بتائیں کہاں لکھا ہے؟وکیل اشتراوصاف نے کہا کہ ڈیفنس کے لیے ٹریننگ سے متعلقہ تمام چیزیں آتی ہیں جن میں اسپورٹس بھی ہے، ریاست پاکستان آرمڈ فورسز کی اس ایکٹیویٹی کو تسلیم کرتی ہے کیونکہ یہ ٹریننگ کا حصہ ہے، پی آئی اے نے حاضر سروس ائر مارشل کو چارج دیا، عدالت عظمیٰ نے ائرمارشل کی سروس ریگولرائز کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے کہا کہ آپ کے دلائل سے لگ رہا ہے کیا پہلے سول حکومت کہے گی کہ کوئی ادارہ چلانے میں ہم ناکام ہوگئے؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں پی آئی اے، واپڈا فیل اور سی ڈی اے تباہ ہو گیا، اس لیے آپ کو بلا رہے ہیں؟ حالانکہ سی ڈی اے نے تو آپ کو بطور ریگولیٹر نوٹس کیا ہے۔وکیل اشتراوصاف نے کہا کہ نہیں میں ایسا کچھ نہیں کہہ رہا، انہوں نے بھری میٹنگ میں کہا کہ ہمیں نہیں پتا زمین کس کی ہے، اسی لیے جواب میں انہوں نے نا بھی نہیں کی اور ہاں بھی نہیں۔ عدالت نے کہا کہ جس وفاقی حکومت کے آپ ماتحت ہیں اس کے کس افسر نے کہاں آپ کو اجازت دی، کوئی بلڈنگ پلان کوئی منظوری کچھ نہیں تھا ،جب ریگولیٹر نے آپ کو نوٹس کردیا تو پھر آپ اس پر کیسے ایکٹیویٹی جاری رکھ سکتے ہیں، ہم تین چار فیصلے دے چکے ہیں کہ 1960 سے لیکر اب تک قانون کیا ہے، جو آپ نے کہا کہ جیسے بطور بادشاہ کام کیا تو اسی قسم کے فیصلوں کی وجہ سے سارے وزیراعظم آج نیب بھگت رہے ہیں، کچھ وزرائے اعظم بچارے اندر تو کچھ کیسز بھگت رہے ہیں۔پاکستان نیول فارمز کے وکیل ملک قمر افضل نے دلائل میں کہا کہ نیول فارمز کا نیوی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ نیوی کے آفیسرز یہ اسکیم چلا رہے ہیں۔، عدالت نے ہاؤسنگ سوسائٹیز کے حوالے سے ایک آرڈر پاس کیا ہے، کیا اس آرڈر کی خلاف ورزی پر کسی باوردی افسر کو نوٹس کریں گے؟، اس کے سنگین اثرات ہو سکتے ہیں، یہ ایک کمرشل بزنس ہے نیوی کہہ رہی ہے اس کا اس سے لینا دینا نہیں۔وکیل ملک قمر افضل نے کہا کہ یہ نیول فارمز اسکیم صرف ویلفیئر کیلیے ہے۔ عدالت نے کہا کہ فلاح و بہبود ان کا نہیں ریاست کا کام ہے ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا واضح کر رہا ہوں میں ہوں یا کوئی اور سب قانون کی نظر میں برابر ہیں ۔وکیل نے کہا کہ یہ ٹرسٹ صرف نیوی والوں کے لیے ہے نو پرافٹ نو لاس (نہ نفع نہ نقصان) کی بنیاد پر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ان لوگوں نے فی سبیل اللہ یہ اسکیم شروع کی ہے، اس ٹرسٹ کا کبھی آڈٹ ہوا؟۔وکیل ملک قمر افضل نے جواب دیا کہ بالکل آڈٹ ہوا ہو گا اس حوالے سے ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دوں گا۔درخواست گزار وکلا نے تعمیرات روکنے کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی نشاندہی کرتے ہوئے کل رات اور آج بھی تعمیرات جاری ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین سی ڈی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے پوچھا کہ چیئرمین سی ڈی اے نیول فارمز اور نیوی سیلنگ کلب کی قانونی حیثیت بتائیں، نیول فارمز کی تعمیرات روکنے کے حکم پر عمل نہ ہوا تو ٹرسٹیز کو سمن جاری کریں۔ عدالت نے پاکستان نیوی سیلنگ کلب کے خلاف کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔