زینب الرٹ

495

وہ قصور کی ایک معصوم بچی تھی جس کو ابھی زندگی کی تعریف بھی ٹھیک سے معلوم نہ تھی، اس بچی کو ایک سفاک انسان نے زیادتی کے بعد قتل کر دیا۔ کچھ ایسی خبریں ہوتی ہیں جو زندہ رہتی ہیں، یہ خبر بھی ایسی ہی تھی۔ معاشرتی دباؤ پر سسٹم حرکت میں آیا، مجرم گرفتار ہوا اور اس کو پھانسی بھی ہوئی۔ زینب کی موت کے بعد ہمیں امید یہی تھی کہ شاید ایسے واقعات اب نہ ہوں، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ پاکستان میں آج بھی بچوں کو اغواء کیا جاتا ہے، ان سے زیادتی بھی کی جاتی ہے اور بعد ازاں قتل کر کے اُن کو پھینک بھی دیا جاتا ہے۔ کچھ بچے ایسے خوش قسمت بھی ہوتے ہیں جن کے صاحب استطاعت والدین تاوان ادا کر کے اپنے جگر گوشوں کو واپس پا لیتے ہیں۔ پاکستان میں آج بھی ۳ ہزار سے زائد بچے سالانہ غائب ہوتے ہیں۔ اغوا برائے تاوان ایک نیٹ ورک کی صورت اختیار کر چکا ہے اور دوسری جانب دیگر گروہ بچوں کو اغواء کرتے ہیں، انہیں معذور کرتے ہیں اور آبائی علاقوں سے دور بھیک مانگنے پر لگا دیا جاتا ہے۔ الغرض کہ پاکستان میں ہمارے جگر گوشے کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں ہیں۔ یہ معصوم ہوتے ہیں، نا سمجھ ہوتے ہیں لہٰذا یہ وارداتیوں کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں اسلام آباد میں ایک بچی کو اس کی ٹیچر نے اپنے بوائے فرینڈ سے قتل کروایا تھا، اس کے قبل بھی وہ دونوں ایسے ہی جرم میں ملوث رہے، آج کل وہ دونوں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اسی طرح خیبر پختون خوا میں ایک شخص نے اپنی ۸ سالہ کزن کو اغواء کیا اور بعد میں اُس کو قتل کر دیا۔ ایسے کئی واقعات ہیں جو پاکستان بھر میں روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔
جب زینب کا واقعہ ہوا تو یہ تجویز پیش کی گئی کہ امریکی ریاست ٹیکساس کے امبر الرٹ کی طرز پر پاکستان میں گمشدہ بچوں کی تیز تر رپورٹ درج کروانے کے لیے اور اُس پر ایکشن لینے کے لیے ‘‘زینب الرٹ‘‘ سسٹم رائج کیا جائے۔ یہ تجویز وقت کے صفحوں گم ہوگئی۔ مجھ سمیت اکثریت کے ذہن سے یہ بالکل ہی یہ بات نکل چکی تھی۔ تاہم، چند قبل مجھے آفس کولیگ نے ’’زینب الرٹ‘‘ ایپ دکھائی اور پھر جب میں نے اس کو ڈاؤن لوڈ کر کے استعمال کیا تو اس کی افادیت کا اندازہ ہوا۔ اس ایپ کوایپل ایپ اسٹور اور گوگل پلے اسٹور سے مفت حاصل کیا جا سکتا ہے۔ زینب الرٹ کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو، سی پی ایل سی، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت حاصل ہے۔ اس کا استعمال پاکستان کے کسی بھی صوبے یا شہر سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ذریعے سے گمشدہ بچے کی رپورٹ باآسانی آن لائن درج کروائی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تھانے وغیرہ میں رپورٹ درج ہونے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے ’اگر اس کو ہی بچا لیا جائے تو بچوں کی تلاش آسان ہو جاتی ہے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، بحیثیت انسان اور معاشرہ اُن کی حفاظت کی سو فی صد ذمے داری والدین کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس ایپ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ فراہم کردہ تمام تر معلومات کو خفیہ رکھا جائے گا۔ رجسٹریشن اور زبان کے انتخاب کے بعد ایپ میں موجود ۱۲ خدمات آپ کی اسکرین پر ظاہر ہوں گی۔ اس میں فی الحال ۲ اہم خدمات یعنی ایک ملے ہوئے بچے کی اطلاع اور دوسری لاپتا بچے کا فوری الرٹ جاری کرنا مکمل کام کر رہی ہیں، باقی خدمات بھی جلد ہی آن لائن دستیاب ہوں گی۔ رپورٹ درج کروانے کے مراحل بھی آن لائن اور آسان ہیں اور اس میں بمشکل چند منٹ لگتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی خدا ترس کو کوئی گمشدہ بچہ ملتا ہے تو وہ اس ایپ کو استعمال کرتے ہوئے اس کا الرٹ بھی جاری کر واسکتا ہے۔ جس کے بعد متعلقہ ادارے اس بچے کو رابطہ کر کے اپنی تحویل میں لیں گے یا اس بچے کے والدین رابطہ کر کے بچے کو حاصل کر سکتے ہیں۔ ایپ ہی سے رپورٹ کے اندراج کے بعد فوری قانونی کاروائی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ایپ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی اور خواہش جاگی کہ اگر یہ ایپ عوام الناس میں مقبول ہو جائے تو پاکستان میں ایسے گھناؤنے واقعات میں فوری کمی لانا ممکن ہے۔
بچے خدا کی انمول نعمت ہیں۔ بچوں کی قدر اُن سے پوچھیں جو آج بھی اولاد کے لیے ترس رہے ہیں۔ میں نے اکثر والدین کو بچوں کے معاملے میں لاپروا سا دیکھا ہے۔ ایسا مت کیجیے، آج کے معاشرے میں بچوں کے حوالے سے لاپروائی اُن سے دشمنی ہے۔ یہ معاشرہ کسی کا بھی سگا نہیں ہے، اپنے بچوں کی حفاظت آپ کو خود کرنی ہے۔ ۹ مہینے بچے کو پیٹ میں پالنا، پھر مستقل اس کے ساتھ سائے کی طرح چمٹ کر اُس کو بڑا کرنا اور پھر ایک معمولی لاپروائی سے زندگی بھر کا روگ پالنا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی اور سسٹم آپ کی مدد کر سکتا ہے، بچوں کو آغوش آپ ہی کی چاہیے۔ خدارا، ان کو سینے سے لگا کر رکھیں۔ اللہ پاک سب کے بچوں کا حامی و ناصر ہو۔