اردو زباں ہماری

565

کسی زمانے میں ذوقؔ نے کہا تھا
اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں ذوقؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
بات درست ہے اردو کی دھوم ہے کیوں کہ اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے جو بولی، سمجھی اور لکھی جاتی ہے۔ پڑوسی ملک کے لوگ اپنی تنگ نظری کے سبب اس کو ہندی کہنے کی فضول ضد کرتے ہیں۔ وہاں کی فلمیں اردو میں ہوتی ہیں لیکن کہلاتی ہندی فلم ہیں۔ اردو شاعری کو سیاست دان اپنی تقریروں میں شامل کرتے ہیں۔ خاص طور سے وہاں جہاں کوئی جواب بن نہیں پڑتا۔ ارکان پارلیمنٹ بھارت کے ہوں یا پاکستان کے اپنی تقریروں میں اردو شاعری کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں۔ میر، مومن ہوں یا اقبالؔ، فیضؔ یا ساحر لدھیانویؔ یا کیفی اعظمیؔ… اردو کے شیدائی سیاست دان اپنی اپنی پسند اور جذبات کے مطابق کچھ نہ کچھ منتخب کر ہی لیتے ہیں۔ کشمیر میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر مسلم دشمنی میں ہٹایا گیا لیکن اردو سے محبت وہاں پاکستان کی طرح رگ میں موجود ہے۔ شاعری میں مشاعرہ ایک ایسی روایت ہے جو دنیا میں صرف اردو ہی میں پائی جاتی ہے، کسی اور زبان میں یہ روایت موجود نہیں۔ آج کل تو اردو کی تازہ بستیاں بسانے کی بات کی جاتی ہے۔ لہٰذا کشمیر میں اردو کی بستی نہیں اجڑ سکتی اردو کی محبت میں مشاعروں میں امریکا، کینیڈا، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، جاپان سے شاعر تشریف لاتے ہیں اور اپنا کلام سناتے ہیں۔ خود ان مقامات پر بھی مشاعروں کی روایت زندہ رہنے اور مستقل انعقاد کی خبریں سناتے ہیں۔
بھارت جہاں تعصب کی آنکھ گویا حکومتی طور پر نصب کرلی گئی ہے۔ لہٰذا اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھا اور سمجھایا جارہا ہے۔ اردو کی بہتری اور فروغ کو مسلمانوں کی بہتری اور فروغ کے ساتھ جوڑا جارہا ہے لیکن اردو کے فروغ کے لیے بہت سے ادارے اور افراد سرگرداں ہیں۔ صرف دہلی میں اردو کے ساتھ ادبی کیلنڈر کے بہت سے پروگرام باقاعدہ رائج ہیں۔ جیسے جشن ریختہ، جشن بہار، جشن ادب، اردو اکیڈمی دہلی کا مشاعرہ وغیرہ ریختہ ڈاٹ کام کے بانی ’’سنجیو صراف‘‘ ہیں۔ جنہوں نے آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں اردو کی مقبولیت کا سہارا اپنے سر لیا۔ ریختہ کے ذریعے اردو کو پڑھنے اور سمجھنے والے آج دو سو سے زیادہ ممالک کے لوگ ہیں جو اردو کے رسم الخط کی طرف متوجہ ہیں اور نہ صرف متوجہ ہیں بلکہ اس کے ایک ایک حروف پر فدا ہیں۔ چناں چہ نظریہ آتا ہے کہ اردو کی ترویج کے لیے پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان میں زیادہ سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں حالاں کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔
ریختہ جیسی ادب اور شاعری کے بارے میں بھرپور ویب سائٹ ایک اردو سے محبت کرنے والے ہندوستانی نے بنائی ہے۔ جس کا کہنا ہے کہ اب تک ہم ساٹھ ہزار کتابوں کو اسکین کرکے انٹرنیٹ پر ڈال چکے ہیں۔ اس وقت بھی ہماری چوبیس مشینیں مختلف جامعات، لائبریریوں اور ذاتی ذخائر میں مستقل کام کررہی ہیں اور اوسط ہر ماہ ڈھائی ہزار کتابیں ہم انٹرنیٹ پر ڈال رہے ہیں۔ آج ٹیکنالوجی کے دور میں یہ کام پاکستان میں کیوں نہ کیا گیا، چلیں نہیں کیا گیا ہندوستان میں ایک ہندو نے کرلیا لیکن پاکستان میں آج بھی ہوسکتا ہے، دیر ہوگئی لیکن پھر بھی بہتری کی شروعات کبھی بھی اور کہیں سے بھی کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں تو جیسے اردو دشمنی کا معاملہ ہے، حکومت کی طرف سے بھی اور عوام کی طرف سے بھی۔ حکومت اردو قومی زبان ہونے کے باوجود اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں ذریعہ تعلیم بنانے پر آمادہ نہیں۔ عدالت عظمیٰ دفاتر کی زبان اردو قرار دینے کا حکم نامہ جاری کرچکا لیکن حکومت اس کو دفاتر میں رائج کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں۔ اُدھر عوام انگریزی سے مرعوب ہیں یہاں تک کہ اردو کو انگریزی حروف میں لکھنے پر مُصر ہیں۔ لیکن اردو کو پاکستان سے نکالا نہیں جاسکتا، بھلا اردو کے بعد کون سی زبان ہے جس پر قوم کو متحد کیا جاسکتا ہے۔ اردو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بولنے اور سمجھنے والی زبان ہے۔ فلسفہ پڑھانے والے پروفیسر وقار اظہر کہتے ہیں کہ میں پچاس سال سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوں لیکن اگر آج بھی فلسفے کی کوئی مشکل تحریر مل جائے تو اسے پڑھ کر پہلے اردو میں ترجمہ کرتا ہوں اور پھر سمجھتا ہوں۔ ہم نے ستر سال سے انگریزی کو دفاتر اور تعلیم کی زبان کے طور پر سینے سے لگا رکھا ہے۔ لیکن یہ بات اگر بڑے شہر کی یونیورسٹی کے پروفیسر کہہ رہے ہیں تو قصبوں اور دیہات کے اساتذہ کیا کہیں گے۔ ڈاکٹر عطا الرحمن کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں پرائمری سطح پر ہمیشہ مادری زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر بچے کو انگریزی میں کوئی بات سکھانے کی کوشش کریں گے جب کہ اُس کی مادری زبان کوئی اور ہو تو مشکلات تو ہوں گی۔
کرنل محمد خان اپنی کتاب بزم آرائیاں میں لکھتے ہیں کہ ’’چند سال ہوئے انگلستان کے مشہور ماہر تعلیم پاکستان آئے، ہم انہیں ایک انگلش میڈیم اسکول دکھانے لے گئے۔ بعد میں فخر سے اُن کی رائے پوچھی جو سننے کے قابل ہے کہنے لگے ’’بھئی آپ کی ہمت قابل داد ہے جو اپنے بچوں کو ایک غیر ملکی زبان میں تعلیم دے رہے ہیں۔ اگر میں انگلستان میں انگریز بچوں کو اردو کے ذریعے تعلیم دینے کی سفارش کروں تو یقینا مجھے اگلی رات کسی نفسیاتی اسپتال میں کاٹنی پڑے۔ آپ واقعی بہادر لوگ ہیں‘‘۔