نواز شریف کے3لاکھ روپے فی کس

427

رپورٹ:منیر عقیل انصاری (muneeraqeelansari@gmail.com)
شہر قائد میں سانحہ بلدیہ کو گزرے 8برس بیت گئے ہیں۔ ایک قیامت تھی آئی اور گزر گئی۔ شعلوں میں جلنے والوں کی چیخیں اوران کے لواحقین کی آہیں آج بھی سنائی دیتی ہیں۔ 260 خاندان جب بھی اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں ان کے زخم پھر سے ہرے ہوجاتے ہیں۔یہ 11 ستمبر 2012ء کی بات ہے جب کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع ایک گارمنٹ فیکٹری میں پھنسے 260 مزدور آگ میں جھلس کر جاں بحق ہوگئے تھے۔آگ اس قدر شدید تھی کہ کئی لاشوں کو شناخت کرنا دشوار ہوگیا تھا اور 17 لاشوں کو بغیر شناخت کیے ہی دفنانا پڑاتھا۔اگر صنعتی شعبے کی بات کی جائے تو پاکستانی تاریخ میں یہ سب سے خطرناک اور جان لیوا حادثہ مانا جاتا ہے۔ 24 خواتین سمیت مرنے والوں کی اکثریت کی عمر 30 برس سے بھی کم تھی اور160افراد غیر شادی شدہ تھے۔بلدیہ ٹاؤن کی علی انٹرپرائزز میں لگنے والی آگ دو سو ساٹھ جانیں نگل گئی۔ ڈیڑھ دن بعد فیکٹری میں لگی آگ پر قابو پایا کیا لیکن لاشیں نکالنے کا سلسلہ ایک ہفتہ تک جاری رہا۔ سوختہ لاشوں کو ڈی این اے کی مدد سے شناخت کیا گیا۔آٹھ سال بعد آج بھی سانحہ بلدیہ کا کیس عدالت میں زیرسماعت ہے اور ذمہ داروں کو سزا نہ مل سکی ہے،جل کر راکھ ہونے والے دو سو ساٹھ260 جسموں سے اٹھتا دھواں آج بھی فضا میں انصاف کا طلب گار ہے۔ان 260 زندگیوں کے جانے سے سیکڑوں بچوں کے سر سے والد کا سایا تواُٹھا کئی مائوں کی اولاد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان سے بچھڑ گئی ہیں۔یہ آگ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی فیکٹری میں لگنے والی آگ میں سے سب سے بڑی آگ تھی۔سانحہ بلدیہ متاثرین ایسوسی ایشن کے صدر محمد جابر احمد سمیت کئی ایسے متاثرین جو انصاف کی امید لیے اس دنیا سے ہی چلے گئے ہیں، جبکہ ہر سال 11 ستمبر کو سانحہ بلدیہ کا دن تو منایا جاتا ہے تقاریب ہوتی ہیں،سانحہ بلدیہ فیکٹری میں شہید ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو تقریب میں مدعو کیا جاتا ہے ان کے ساتھ دکھ کا اظہار کیا جاتا ہے،متاثرین کے ساتھ تصاویر بھی بنائی جاتی ہیں اور ہر سال متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی خوب کرائی جاتی ہے، مگر انصاف فراہم نہیں کیا جاتا ہے۔سانحے کو 8 برس کاعرصہ گزرگیا مگر متاثرین کو انصاف کی فراہمی کرنا ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے، متاثرین کے اہل خانہ انصاف کے حصول کے لئے کئی برسوں سے عدالتوں کے چکر بھی لگاتے ہیں،جب کمرہ عدالت میں وہ اپنے پیاروں کی حالت بیان کرتے ہیں تو ہر آنکھ اشک بار ہو جاتی ہے،ان انصاف کے منتظرین کا کل بھی اور آج بھی ایک ہی مقصد ہے انصاف کی فراہمی، اب دیکھنا یہ کہ ہماری حکومت کب نیند سے اٹھے گی اور کب ان متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے گا، کیا انصاف دیا بھی جائے گا یا پھر یہ لوگ بھی دیگر متاثرین کی طرح اپنے دل میں حکومت سے انصاف کی امید رکھتے ہوئے اپنے پیاروں سے جا ملیں گے۔بلدیہ فیکٹری کے واقعے کو 8 برس بیت گئے لیکن ہمیں اس واقعے سے ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔مقدمات کی تیز ترین سماعت کے ساتھ فیکٹریوں میں کام کرنے کے حالات میں زبردست اصلاحات لانی ہوں گی تاکہ مستقبل میں اس قسم کے سانحات (اگر حادثہ تھے تو)سے بچا جاسکے اور مجرمانہ غفلت کے باعث لوگ اپنی زندگیاں نہ کھوئیں۔سانحہ بلدیہ (علی انٹر پرائزز) متاثرین ایسوسی ایشن کی چیئر پرسن سعیدہ خاتون نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرا 18 سال کا اکلوتا بیٹا اعجاز احمد عرف ایان ان 260 مزدوروں میں شامل تھا جو 11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ میں واقع علی انٹرپرائیز فیکٹری میں آتشزدگی میں جھلسنے اور سانس گھنٹے سے جاں بحق ہو گیا تھا۔ 11ستمبر 2012کو صنعتی تاریخ کے بھیانک ترین حادثے میں شہید 260مزدوروں کے لواحقین آج 8 سال بعد بھی انصاف کے منتظر ہیں،جبکہ سانحے کے ذمے دار آزاد گھوم رہے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ سانحے کے بعد بہت سی سیاسی اور مذ ہبی تنظیموں نے ہم سے رابطہ کیا ا ورہم پر گزرنے والی قیامت کی گھڑی میں ساتھ دینے کے وعدے کیے۔ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے اور مالی امداد کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تاہم واحد جماعت جماعت اسلامی ہے جس نے سانحہ بلدیہ فیکٹری میں جاں بحق ہونے والے 260 افراد کے لیے2 کروڑ کی رقم کا اعلان کیا اور وہ تقریباً تمام شہدا کے لواحقین کو خود رابطہ کر کے ان کے گھروں پر جا کر امدادی رقم کے چیک دیے ہیں۔جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے واقعے کے بعد پنجاب حکومت کی جانب سے3 لاکھ فی کس کے حساب سے مالی امداد کا اعلان کیا تھا۔ اسی طرح سا بق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے حکومت سندھ کی جانب سے لواحقین میں سے کسی ایک فرد کو سرکاری ملازمت، ایک پلاٹ اور ان کے تمام بچوں کی مفت تعلیم کا اعلان کیا تھا،2017 میں اس وقت کے سندھ کے صوبائی وزیر محنت و افرادی قوت ناصر حسین شاہ نے ایک تقریب میں متاثرین کے لئے 56 کروڑ روپے کی اضافی رقم دینے کا اعلان کیا تھا، جسے آج 3 سال گزر گئے مگر ایک پھوٹی کوڑی بھی جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو نہیں مل سکی ہے۔جب متاثرین نے ناصر حسین شاہ کی جانب سے اعلان کردہ رقم جاری نہ کرنے کہ خلاف درخواست دائر کی تو سندھ حکومت نے پیسے دینے سے صاف انکار کردیا ہے۔سابق وزیراعظم پاکستان اور سندھ حکومت کی جانب سے ہونے والے اعلانات کی بار بار یقین دہانی کے باوجود اب8 برس بیت گئے ہے کو ئی مالی امداد نہیں کی ہے۔انہوں نے کہا کہ عالمگیرویلفئر ٹرسٹ کی جانب سے تمام متاثرین کو6 ماہ تک راشن دیا گیا تھا جبکہ بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض نے فی کس2 لاکھ کا اعلان کیا تھا۔ تاہم 100 سے زاید گھرانوں کو تاحال یہ رقم نہیں مل سکی ہے۔سعیدہ خاتون کا کہنا ہے کہ میرے جیسے سینکڑوں افراد 8 سال بعدبھی انصاف کے منتظر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں فیکٹری مالکان کو بھی بری الذمّہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔انہوں نے فیکٹری میں آگ سے بچائوکے حفاظتی انتظامات کرنے کے بجائے اسے ایک قید خانے میں تبدیل کیا ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس سنگین واقعے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ان کے بقول سانحہ بلدیہ کو 8 سال گزرنے کے بعد بھی کراچی میں قائم متعدد فیکٹریوں میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ،فیکٹریوں، کارخانوں اور کارگاہوں میں ہیلتھ اور سیفٹی یقینی بنانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے، فیکٹری مالکان،حکومتی ادارے اور بین الاقوامی برانڈز نے آج بھی مزدوروں کو بدترین حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے،سعیدہ خاتون کا کہنا تھا کہ میں انصاف کے لیے کراچی کی عدالتوں سے لے کر یورپی عدالتوں اور جرمنی کے مختلف شہروں میں جدوجہد کرتی رہی ہوں،انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا اعجاز احمد 11 ستمبر 2012ء کو کام پر گیا مگر کبھی واپس نہیں آیا۔میری زندگی میں سب سے بڑا لطف اپنے بیٹے کے لیے کھانا پکانا تھا، مگر اب 8 سال سے میں گھر پر کھانا بنانا چھوڑ چکی ہیں کیونکہ اس سے مجھے اپنے بیٹے کی یاد آتی ہے۔سعیدہ خاتون کہتی ہیں کہ فیکٹری میں حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن جب تک وہ زندہ ہیں آواز اٹھاتی رہیں گی، اس جدوجہد کے دوران انہیں اپنا گھر تک چھوڑنا پڑا لیکن وہ دباؤ برداشت کرتی رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ علی انٹرپرائزز کے مالکان بیرونِ ملک مقیم اور مقدمات سے محفوظ ہیں۔ کیا یہ حادثہ تھا یا سازش؟ ہمیں 8سالہ طویل مقدمے کے باوجود یہ ابھی بھی معلوم نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے سنسنی خیز اعترافات اور انکشافات کے باوجود بلدیہ کیس حل سے کوسوں دور ہے۔اس دوران 6 گواہ قدرتی وجوہات کی بنا پر وفات پاچکے ہیں۔ مقدمے کے حل کے لیے ابھی کتنا وقت درکار ہے، کوئی نہیں جانتا ہے۔ سعیدہ خاتون کا کہنا تھا کہ میںنے اپنی زندگی کو پاکستان کے مزدوروں اور استحصال کے شکار طبقات کے حقوق کے لیے وقف کردیا ہے۔کیونکہ میرے نزدیک وہ تمام افراد ان کے اس بیٹے کی ہی طرح ہیں جنہیں وہ کھو چکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے افسو س ہے کہ کراچی میں ہونے والے سانحہ بلدیہ کو آج 8برس ہو گئے ہیں لیکن ہمارے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ہم سے آج تک ایک افسوس کا پیغام تک نہیں بھیجاہے،جس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ انھیں پاکستان کے مزودروں اور ان کے اہل خانہ سے کتنی ہمدردی ہے،انہوں نے کہا کہ کراچی سینٹرل جیل میں انسداد دہشتگردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے جو 17 ستمبر کو سنایا جائے گا،مجھے امید ہے کہ 17ستمبر کو کوئی اچھا فیصلہ سنایا جائے گا،جن درندوں نے 260زندہ لوگوں کو جلایا ہے وہ اپنے انجام کو پہنچیں گے۔سانحہ بلدیہ متاثرین ایسوسی ایشن ‘‘ کے جنرل سیکر ٹری عبد العزیز کا کہنا ہے کہ سانحہ بلدیہ کے شہداء کے لواحقین سے کیے گئے وعدے ایک سراب ثابت ہوئے ہیں اور انھیں مکمل طور پر فراموش کر دیا گیا ہے۔ یہ پاکستان ہے یہاں ا ندھیر نگری چوپٹ راج ہے سانحہ بلدیہ میں260 افراد شہید ہوئے اگر خد انخواستہ پاکستان کے کسی شہر میں لاکھوں افراد بھی جاں بحق ہو جائیں تو بھی انصاف ملنا مشکل ہے یہاں ایوانوں میں بیٹھے لوگ اندھے اور بہرے ہیں ان کو غریب کا کوئی خیال نہیں ہے۔سانحہ بلدیہ کے لواحقین کو تاحیات پنشن کارڈ ، گروپ انشورنس اور گریجویٹی دی جائے۔جن شہدا ء کےDNAتصدیق نہیں ہوسکے تھے ان کے DNAسرٹیفیکٹ جاری کیے جائیں۔ سابق وزیر اعظم،چیف منسٹر سندھ اور ملک ریاض سانحہ بلدیہ کے لواحقین سے اپنے کیے گئے وعدے پورے کریں۔ ILOاورGSP+کے تحت تسلیم کیے گئے لیبر قوانین اور معیارات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ غیر قانونی ٹھیکہ داری نظام کو فی الفور ختم کیا جائے۔ملازمت کے وقت وکرز کو تقرر نامے جاری کیے جائیں۔ ورکرز کی سوشل سیکورٹی اور پنشن کے اداروں سے رجسٹریشن کو یقینی بنایا جائے۔