یونانی کیمپ میں آتشزدگی نے یورپ کا مکروہ چہرہ دکھادیا

446
یونان: موریا کیمپ میں آتش زدگی کے باعث بے گھر ہونے والے تارکین وطن سڑکوں پر پڑے ہیں

برسلز/ برلن (انٹرنیشنل ڈیسک) یونان میں مہاجرین کے سب سے بڑے کیمپ موریا میں آتش زدگی سے وہاں مقیم 12ہزار تارکین وطن ایک بار پھر بے گھر ہوگئے۔ اس حادثے نے یورپی یونین کی مہاجر دشمن پالیسیوں کو ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے۔ جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق مہاجرین کے بحران کو کور کرنے والے صحافی جیورج میتھیوس کا کہنا ہے کہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پناہ کا یورپی قانون ناکام ہوگیا ہے۔ خیال رہے کہ ڈبلن کے نام نہاد قوانین کے مطابق پناہ کے متلاشی افراد اپنی درخواستیں اسی ملک میں جمع کراسکتے ہیں، جہاں سے وہ یورپی سرزمین میں داخل ہوئے ہوں۔ جیورج میتھیوس کا کہنا ہے کہ یورپ کی بیرونی سرحدوں پر واقع ممالک جیسے کہ اٹلی اور یونان کے ساتھ یہ رویہ صرف ناانصافی ہی نہیں، بلکہ استطاعت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ یورپی یونین کے کمیشن نے ملکی آبادی اور معاشی طاقت کے حساب سے پناہ گزینوں کو تقسیم کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن یہ بھی کارآمد ثابت نہ ہو سکی۔ ہنگری، پولینڈ، چیک رپبلک اور سلواکیہ کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ مشرقی یورپ کسی بھی طرح کی پناہ دینے کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔ جرمنی، سوئیڈن اور لکسمبرگ جیسے چند ممالک نے رضاکارانہ طور پر مہاجرین کو پناہ دی ہے۔ تاہم مہاجرین کا یہ بحران شروع ہونے کے 5سال بعد بھی یورپی یونین میں مہاجرین کے معاملے پر گہری تقسیم ہے۔ ادھر موریا مہاجرکیمپ میں آتشزدگی کے بعد ہزاروں افراد نے جرمنی میں احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ ان مظاہرین کا وفاقی حکومت سے مطالبہ تھا کہ وہاں پھنسے مہاجرین کو جرمنی میں سیاسی پناہ فراہم کی جائے۔