یہود و ہنود کی مسلمانوں سے نفرت

1265

ڈاکٹر خلیل مبین
مسلمانوں پر ابتلا کے موجودہ دور میں یہود و ہنود کی سازشوں میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہودی مذہب عرف عام میں ایک نسلی مذہب ہے، یعنی غیر یہودیوں میں اس کی تبلیغ نہیں کی جاتی اور یہودی صرف پیدائشی ہوتا ہے۔ سیدنا یعقوبؑ کا لقب اسرائیل تھا۔ اسی مناسبت سے یہودی بنی اسرائیل کہلائے۔ نبی کریمؐ سے یہودیوں کے مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ آپؐ سیدنا اسحاقؑ کی نسل سے نہیں اور یہ کہ نبوت سیدنا اسماعیلؑ کی اولاد کو کیوں منتقل ہوئی۔ جس کا زخم وہ کبھی نہیں بھولے اور اب وہ مسلمان ملکوں خصوصاً عرب سرزمین پر قبضہ کرکے اُن سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔
ہندو مذہب بھی ایک نسلی مذہب ہے، جس کی تاریخ بھی ہزاروں سال پرانی ہے۔ شمال سے آریائوں نے ہندوستان کی طرف پیش قدمی کی اور دراوڑ نسل کو مفتوح کرکے ہندو مذہب کی صورت گری کی۔ 1300 سال قبل محمد بن قاسم نے ایک عورت کی فریاد پر لبیک کہا اور ہندوستان میں راجا داہر کو شکست دی۔ یوں ہندوستان میں اسلام کا سورج طلوع ہوا۔ بعدازاں ایک مسلم غلام قطب الدین ایبک اور دوسرے سلاطین نے ہندوستان پر حکومت کی اور پھر مغلوں نے وہاں ایک ہزار سال تک حکمرانی کی۔ آخر کار بھارت کا سینہ چیر کر پاکستان وجود میں آیا۔ یہ سب واقعات کیونکر ہندوئوں سے برداشت ہوسکتے تھے، لہٰذا ہندوؤں نے اب ایک بار پھر اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنا شروع کردیے ہیں اور بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی اپنے کٹھ پتلی وزیر اعظم کو استعمال کرتے ہوئے ہندوتوا پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے اُسی راہ کی جانب پیش قدمی کررہی ہے۔
گوسالہ پرستی: سیدنا موسیٰؑ کے کوہ طور پر جاتے ہی یہودیوں نے گائے کے بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ انبیا سے وعدہ خلافی پر اللہ کی طرف سے یہودیوں پر عذاب نازل ہوتے رہے ہیں۔ اپنی غرض یا مطلب پورا کرنے کے لیے یہ قوم کچھ بھی کرسکتی ہے۔ جس گائے کی ان ظالموں نے عقیدت میں پوجا کی، اسی کو اب ذبح کرنے کے چکر میں ہیں۔ وہ سرخ بچھڑا (Red Heifer) کے انتظار میں ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق یہ ایک سرخ بچھڑا ہے جس کے صرف 3 بال سیاہ ہوں گے۔ وہ پیدا ہوچکا ہے۔ یہودی اس کی قربانی کریں گے جس کے بعد ان کا مسیحا یعنی دجّال آئے گا اور انہیں دنیا کی حکمرانی دلائے گا۔
ہندو مذہب میں بھی گائے بڑی متبرک ہے۔ وہ دودھ دیتی ہے اور اس کی کھال پہنی جاتی ہے۔ گاندھی نے مسلمانوں سے گائے کے متبرک ہونے کی وجہ سے اس کی قربانی نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ مسلم کش فسادات مسلمانوں پر گائے ذبح کرنے کے جھوٹے الزامات کی بنا ہی پر ہوئے۔ یہی ہندو ہر سال بقر عید پر سیکڑوں گائیں ہندوستان سے پاکستان کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ مقصد پیسہ کمانا ہے اور وہ چاہے گائے کے ذبیحے ہی کی وجہ سے کیوں نہ ہو۔
عظیم اسرائیل، عظیم بھارت: zionism (صہیونیت) مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی سلطنت بنانے کی تحریک ہے۔ اس تحریک کی بنیاد 1897ء میں تھیوڈور ہرزل نے رکھی، جس کا مقصد ارض فلسطین میں ناجائز اسرائیلی ریاست قائم کرنا تھا۔ فلسطین میں مسلمان کثیر تعداد میں کچھ عیسائیوں اور بہت تھوڑے یہودیوں کے ساتھ صدیوں سے رہتے آئے تھے۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا اور امریکا نے اسی روز اسے تسلیم کرلیا۔ 1967ء میں 6 دن کی جنگ میں اسرائیل نے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت عرب علاقے ہتھیالیے۔ یہودیوں کے نزدیک ایک یہودی ایک ہزار غیر یہودیوں کے برابر ہے۔ اسی حساب سے انہیں زمین بھی چاہیے۔ عظیم اسرائیل (Geater Israel) میں عراق، مصر، شام، اردن، فلسطین اور سعودی عرب کے علاقے شامل ہیں۔ دیکھا جائے تو اسرائیل مغرب سے مشرق کی سمت بڑھ رہا ہے۔
دوسری طرف بھارت مخالف سمت یعنی مشرق سے مغرب کی طرف پیش قدمی کررہا ہے۔ اس کا اکھنڈ بھارت کا منصوبہ مطالعہ کرنے کے لائق ہے۔ ڈھائی ہزار سال پہلے ناقابل شکست سکندر اعظم نے تقریباً ہندوستان فتح کرلیا تھا، چانکیہ کی محنت سے ہندوستان کی تمام ریاستیں سکندر کے مقابلے کے لیے متحد ہوگئیں اور سکندر کو اپنے ارادوں میں ناکامی ہوئی۔ چانکیہ نے کہا تھا کہ ہمالیہ کے پہاڑوں سے سمندر تک انڈیا ایک ہے۔ اکھنڈ بھارت میں پاکستان، بنگلادیش، افغانستان، نیپال، سری لنکا وغیرہ شامل ہیں۔
عرب و کشمیر پر قبضہ: 1948ء میں سرزمین فلسطین 3 حصوں میں بانٹ دی گئی۔ اسرائیل، غزہ اور مغربی کنارہ۔ اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم جاری رہے۔ معاہدہ کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو بھی لڑائی جھگڑا نہ روک سکے۔ اب امریکا نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے مزید خباثت کا ثبوت دیا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی طاقتوں نے یہودیوں کو فلسطین میں بسانا شروع کیا۔ اس وقت یہودی فلسطین کی کل آبادی کا 5 فی صد بھی نہیں تھے۔ بین الاقوامی سازشوں سے یہودی سرزمین فلسطین پر قابض ہوگئے اور فلسطینیوں کو زور زبردستی سے ان کے علاقے سے نکال دیا۔ بالآخر 2 چھوٹے ٹکڑے، مغربی کنارہ اور غزہ فلسطینیوں کے لیے چھوڑ دیے گئے۔
بھارت نے 1947ء میں کشمیر پر قبضہ کرلیا۔ قبائلیوں کے آدھا کشمیر آزاد کرانے پر بھارت روتا دھوتا اقوام متحدہ پہنچا اور وعدہ کیا کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے کرائے گام مگر وہ اس سے مکر گیا۔ پاکستان کے دریائوں کا منبع مقبوضہ کشمیر ہے۔ 70 سال بعد قوانین تبدیل کیے گئے اور بھارت نے 370-A ختم کردیا۔ اب کشمیر براہ راست بھارت کے کنٹرول میں آگیا ہے۔ دوسری تبدیلی کے تحت اب غیر کشمیری یہاں جائداد خرید سکتے ہیں۔ یہ تمام قانونی تبدیلیاں مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا توازن بگاڑنے کے لیے کی گئی ہیں تا کہ مسلمان اقلیت میں آجائیں اور بھارت کشمیر میں استصواب رائے پر راضی ہوجائے۔ اس طرح وہ کشمیر کے متعلق من مانا فیصلہ حاصل کرسکتا ہے۔
مساجد کا انہدام: 1969ء میں مسجد اقصیٰ کے ایک حصے کو آگ لگادی گئی۔ اس کا ذمے دار ایک یہودی ڈینس مائیکل تھا۔ اس کے مطابق مسیحا مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کے بعد ہی آئے گا۔ مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر ضروری ہے۔ کئی بار مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگ کی کھدائی بھی مسجد کو ڈھانے کی ناپاک کوشش تھی۔ یہودیوں کے نزدیک مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی گراکر تعمیر کی گئی۔
1992ء میں ہندوئوں نے بابری مسجد شہید کردی۔ ان کے مطابق یہ جگہ رام جنم بھومی تھی اور بابر نے مسجد جنم بھومی مسمار کرکے تعمیر کی تھی۔ حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے اس جگہ کو رام جنم بھومی قرار دیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق اس جگہ مندر تعمیر ہوگا۔ فلسطینی، اسرائیلی اور اُردنی پانی کی ضرورت کے لیے جھیل طبریاس پر انحصار کرتے ہیں۔ جھیل میں پانی خطرناک حد تک کم ہوگیا ہے۔ جھیل خشک ہونے پر یہودی تو نمکین سمندری پانی کو میٹھا بنا کر گزارا کرسکتے ہیں، مگر ایسا کرنا فلسطینیوں اور اُردنی شہریوں کے لیے ازحد مشکل ہوگا اور حقیقتاً ان کے لیے اس کا متبادل نہیں۔ پانی زندگی ہے اور اس کے لیے اسرائیل پر انحصار لازماً کرنا ہوگا۔ یہودی سود خور ہیں۔ مسلمانوں کو موت قبول کرنا ہوگی یا اسرائیل کی شرائط پر اس سے سمجھوتا کرنا ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر پاکستان کے لیے پانی کا اصل ذریعہ ہے۔ یہ بھارت کے قبضے میں ہے۔ بھارت اگر چاہے تو دریائوں کا پانی روک کر قحط یا شدید بارش میں پانی چھوڑ کر سیلابی صورت حال پیدا کردے۔ قائد اعظم نے کشمیر کو ایسے ہی پاکستان کی شہ رگ نہیں کہا تھا۔ اللہ رحم کرے اور مسلمانوں کو فتنہ یہود و ہنود سے محفوظ رکھے۔ (آمین)