زندگی بعد از کورونا

199

بنت شیروانی
آج گھر میں بہت سناٹا تھا۔ہوکا سا عالم تھا،خاموشی چھائ ہوئ تھی۔کوئ چیخ و پکار نہیں تھی اور نہ ہی کوئ لڑائ جھگڑا تھا۔نہ تو کوئ آوازیں آرہی تھیں اور نہ ہی شورو غُل تھا۔
ورنہ اس سے پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ وہ صبح جب اپنے کمرے سے نکلتی اور لاؤنج میں داخل ہوتی تو لیپ ٹاپ کے سامنے اس کا بیٹھا سترہ سالہ دیور کہتا بھابی میری آن لائن کلاس چل رہی ہے اور کیمرا آن تھا کہ آپ آگئیں ۔کم از کم بتا ہی دیا کریں۔اور وہ یہ کہنے کے لیے لب ہی کھولتی تو اچھا میں اب اپنے کمرے سے باہر نکلنے کے لیےپہلے مائک پر اعلان کیاکروں!لیکن ان لبوں کے ہلنے سے پہلے ہی ساتھ کمرے میں موجود منجھلے دیور کے بچے جو اپنے کمرے کے نیچے سے جھانک رہے ہوتے اس کے قدموں کی آہٹ پاتے ہی دروازہ کھولتے اور زور دار نعرہ کہ تائ امی اٹھ گئیں ،تائ امی اٹھ گئیں کہتے اس طریقہ سے نکلتے جیسے جیل کے قیدی یا پھر چڑیا گھر کے پنجروں میں بند جانور۔
اور ساتھ ہی دوسرے کمرے سے سسر صاحب کی آواز آتی کہ بہو ذرا ہمارے موبائل کو دیکھنا ہم فرخ صاحب کو فون کر رہے ہیں لیکن آواز ہی نہیں آرہی تو کبھی اس موبائل میں موجود تصویریں نظر نہ آرہی ہوتیں تو وہ اس کے لیے بھی اپنی بڑی بہو کے منتظر ہوتے۔
اور ایسے میں وہ کبھی اپنے لیے ناشتہ میں میٹھا پراٹھا بنانا چاہتی تو جہاں اس کے اپنے بچے بھی اس کی فرمائش کرتے وہیں دیور کے بچوں کو بھی یہی کھانا ہوتا اور وہ بھی کہتے تائ امی میرے لیے بھی ،تائ امی میرے لیے بھی۔اور اس کا دل کرتا کہ کہے کہ اپنی اماں سے کہو نا کہ وہ بنا کر دیں لیکن اسی وقت اس کی دیورانی کے سر میں درد ہوجاتا یا پھر کوئ بہت ہی ضروری اور ایمرجنسی کی بنیادوں پر نپٹانے والا کام اسے یاد آجاتا تو وہ تو اس وقت باورچی خانہ میں جھانکنے تک کی زحمت نہ کرتیں۔
اور اگر ایسے میں وہ بس وہ زور کی آواز میں یہ کہتی کہ ایسے گھر میں رہنے سے بہتر ہے کہ انسان کہیں خلا میں ہی چلا جائے کہ جہاں انسان کا دل کبھی ایک میٹھا پراٹھا کھانے کا کرے تو اس ایک کی جگہ آٹھ بنانے پڑیں ۔بندہ سکون سے کچھ کھا بھی نہی سکتا ۔نند یہ کہتی کہ بھابی ذرا آہستہ بولیں کہ میری سہیلیاںآئی ہوئی ہیں۔
تو ساتھ ہی بڑے والے دیور کی دوسرے نمبر کی بیٹی بھی یہ کہتی اپنے کمرے سے آتی کہ تائی امی میری آن لائن کلاسس چل رہی ہیں ۔میں نے مائک ان میوٹ کیا ہی تھا کہ آپ کی آوازیں آنے لگیں۔اور اس وقت بس وہ یہ کہتی کہ آگ لگے ان آن لائن کلاسس کو بھی ۔کہ بندہ اپنے گھر میں بھی کچھ بول نہیں سکتا۔
اور اس سے زیادہ مسئلہ تو جھاڑو ،پونچھا کرتے وقت ہوتا کہ ادھر پونچھا لگایا اُدھر اس اپنے بچے اور دیور کے بچے ایک دوسرے کی شکایتیں کرنے ،گیلی زمین پر پاؤں بناتے ،پھسلتے آجاتے اور اس وقت وہ کہتی رہ جاتی کہ صبر نہیں ہے ۔دیکھ نہیں رہے کہ زمین گیلی ہے۔تھوڑا سا انتظار نہیں کر سکتے تھے اور اسی میں وہ ایک آدھ ہاتھ سارے ہی بچوں پر جڑ دیتی اور اس وقت وہ شدید جھنجلائی ہوئی ہوتی مجال ہے اس گھر میں بندہ کوئی کام ذرا سکون سے کر سکے۔
ہر وقت ہی دھما چوکڑی رہتی ہے۔
اور آج کئ مہینوں بعد اتنا گھر میں سناٹا تھا۔ویرانی تھی۔وہ حیران و پریشان ہی تھی کہ زور دار بجتے دروازہ کی آواز سے وہ ہر بڑا کر اٹھ بیٹھی اور گھبراہٹ کے عالم میں اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے اس کی دیورانی کھڑی تھی۔اس نے بد حواسی کے عالم میں پوچھا کہ فرزانہ آج گھر میں اتنا سناٹا کیوں ہے؟کیوں اتنی ویرانی ہے؟سارے بچے کہاں ہیں؟ابا جی مجھے اپنا موبائل ٹھیک کرنے کے لیے آوازیں کیوں نہیں دے رہے؟اور وہ حسن (اس کا دیور)اور فاریہ(اس کی نند) کہاں ہیں؟ کہاں ہیں سب؟کیا ہوا ہے؟
وہ بد حواسی کے عالم میں پوچھے جارہی تھی کہ دیورانی نے کہا بھابی آپ خود تو سارے بچوں کو اسکول ، دیور کو کالج،نند کو یونیورسٹی اور ابا جی دفتر روانہ کر کے سوئی ہیں۔
اور اس نے کہا اچھا کورونا کہ بعد آج اسکول ،کالج ،یونیورسٹی سب کھل گئے!
اور اسے گزشتہ گزرے مہینوں کا وقت یاد آنے لگا اور اس وقت میں اپنا کیا غصہ تو حد سے زیادہ جھنجھلاہٹ کرنا یاد آرہا تھا۔اس وقت وہ نادم بھی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر وہ یہ جملہ”کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا” بڑا بڑا لکھ کر کہیں نمایاں جگہ پر آویزاں کر دیتی تو اس وقت نادم نہ ہونا پڑتا۔