غیرت کے نام پر قتل میں کوئی غیرت نہیں،عدالت عظمیٰ

281

اسلام آباد(خبر ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا ہے کہ غیرت کے نام پر خواتین کا قتل کبھی بھی قابل احترام عمل نہیں تھا۔ اس طرح کے قتل کو غیرت کے نام پر قتل کا درجہ نہیں دیا جانا چاہیے۔ میڈیارپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جیل پٹیشن کی سماعت کے دوران اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر اس کی وضاحت کے لیے لفظ ‘غیرت’ استعمال نہ کیا جائے تو یہ اس طرح کے قتل کو روکنے میں مددگار ثابت ہوگا۔جسٹس عیسیٰ کی سربراہی میں دو ججز پر مشتمل بینچ نے صائمہ بی بی کے قتل کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے 8 ستمبر 2015 کے فیصلے کے خلاف ان کے شوہر محمد عباس کی جیل اپیل پر سماعت کی تھی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ خواتین کے خلاف جرائم کی حوصلہ شکنی کے لیے کافی کام نہیں کیا جارہا ہے، پاکستانی معاشرہ انتہا پسندی اور تشدد کی لپیٹ میں آچکا ہے۔محمد عباس پر اپنی بیوی کو قتل کرنے کے الزام کا سامنا تھا۔ صائمہ بی بی کے بھائی،
شکایت کنندہ محمد اصغر نے پولیس کو اطلاع دی تھی کہ اس کی بہن کو اس کے شوہر نے قتل کردیا ہے۔یہ جرم 17 مئی 2009 کو رات ایک بجے کیا گیا تھا اور اس کی ایف آئی آر ننکانہ صاحب ضلع، بڑا گھر پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی تھی۔محمد عباس کے خلاف ننکانہ صاحب کے سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت ہوئی تھی جنہوں نے اپنی بیوی کو قتل کرنے کے الزام میں ملزم کو سزائے موت سنائی تھی۔ملزم کو یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ متوفی کے قانونی ورثا کو 50 ہزار روپے معاوضہ ادا کرے۔تاہم بعد ازاں ہائی کورٹ نے سزائے موت کو عمر قید کی سزا میں تبدیل کردیا تھا اور کہا تھا کہ ملزم نے مقتولہ پر صرف ایک بار گولی چلائی تھی۔سپریم کورٹ نے جیل کی اپیل اس بنیاد پر خارج کردی کہ چھٹی دینے کی منظوری کا کوئی جواز نہیں کیونکہ ٹرائل کورٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ درخواست گزار نے اپنی اہلیہ کا قتل کیا تھا جبکہ ہائیکورٹ نے سزا کو برقرار رکھتے ہوئے اسے کم کرکے عمر قید کردیا تھا۔غیرت کے نام پر قتل کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وضاحت دی کہ اردو لفظ ‘غیرت’ کا انگریزی میں ‘honour’ کے طور پر ترجمہ کرنا غلط ہے۔ اردو لفظ کا انگریزی میں کوئی مساوی نہیں ہے۔’غیرت’ کی خصوصیت کا زیادہ درست ترجمہ ’تکبر‘ ہوگا اور ایسی خصلت والا ایک ’متکبر‘ شخص ہے۔