مسلح فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے،وزیراعظم

626
اسلام آباد، وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے حوالے سے اجلاس ہورہا ہے

اسلام آباد(خبر ایجنسیاں) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہماری حکومت کے فوج کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں اور فوج حکومت کی تمام پالیسیوں کی حمایت کرتی ہے۔غیر ٹی وی چینل الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں اس وقت ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوگئی جب پہلے ہی سوال کے جواب میں عمران خان غصے میں آگئے اور مائیک اتار پھینکا اور غصے کے عالم میں استفسار کیا کہ یہ انٹرویو کس نے ارینج کیا تو وزیر اطلاعات شبلی فراز اور وزارت اطلاعات کے حکام نےبتایا کہ ان کا اس انٹرویو میں ارینج کرنے میں کوئی کردار نہیںیہ معاون خصوصی کی جانب ارینج کیا گیا جس پر وزیراعظم نے سخت خفگی کا اظہار کیا تاہم بعد میں انہوں نے دیگر سوالات کے جوابات دینے کے لیے انٹرویو مکمل کیا۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ جمہوری حکومت ہے جو انتخابات جیت کر آئی ہے، حکومت سنبھالی تو معاشی چیلنجز کا سامنا تھا اور راتوں رات معیشت کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ ملک کو درست سمت میں گامزن کردیا ہے، ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ کورونا سے متعلق پاکستان نے بہترین فیصلے کیے، ہم نے آنکھیں بند کر کے مکمل لاک ڈاؤن کی پالیسی نہیں اپنائی۔انہوں نے کہا کہ 20 سال برطانیہ میں رہا ہوں اس لیے جانتا ہوں کہ آزادی اظہار رائے کا کیا مطلب ہے، پاکستان میں میڈیا پر کوئی قدغن نہیں ہے، میں تنقید سے خوفزدہ نہیں لیکن لیکن ہماری حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا ہے،ہم خوابوں کی دنیا میں نہیں رہتے جہاں جادو کی چھڑی گماتے ہی حالات تبدیل ہو جائیں۔ہماری حکومت میں فوجی قیادت سے بہترین تعلقات ہیں جو ماضی میں بہتر نہیں رہے، ہم فوج کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں اور فوج حکومت کی تمام پالیسیوں کی حمایت کرتی ہے۔افغان امن عمل سے متعلق انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغان مسئلے کے حل کے لیے بہت کاوشیں کیں،بعض عناصر افغان امن عمل متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ افغان امن عمل معاہدہ ایک معجزہ ہے، بھارت کی افغانستان میں سرگرمیاں پاکستان کے لیے تشویشناک ہیں۔وزیراعظم نے کہاکہ اقتدار میں آیا تو بھارت کی طرف امن کے لیے ہاتھ بڑھایا، بھارت کوکسی بھی پاکستانی سے بہتر جانتا ہوں وہاں انتہا پسندوں کی حکومت ہے، آر ایس ایس ایک انتہا پسند تنظیم ہے اور بی جے پی آر ایس ایس کے انتہا پسندانہ نظریات پر عمل پیرا ہے، بھارتی حکومت نازیوں سے متاثر ہے۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کشمیر پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا قائدانہ کردار چاہتے تھے، سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے بہترین برادرانہ تعلقات ہیں اور ہمیشہ دوستانہ تعلقات رہیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کچھ ممالک تجارتی مفادات کی وجہ سے کشمیر میں بھارتی ناانصافیوں پر خاموش ہیں تاہم پاکستان چپ کرکے نہیں بیٹھے گا۔پاکستان کا معاشی مستقبل چین سے جڑا ہے، چین سے تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہیں، امریکا سے بھی بہترین تعلقات ہیں لیکن پاکستان کو چین یا امریکا سمیت کسی کا کیمپ بننے کی ضرورت نہیں۔مسئلہ فلسطین پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان آزاد فلسطین کی حمایت کرتا ہے اور اسی مؤقف پر قائم ہے،چند ملکوں کے اسرائیل کو تسلیم سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سال ملک میں یکساں نصاب تعلیم نافذ ہوگا ،پاکستان کے لیے جو بھی فیصلے کریں گے قومی مفاد میں کریں گے۔علاوہ ازیںوزیرِ اعظم کی زیر صدارت نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی برائے ہاؤسنگ، کنسٹرکشن اور ڈیولپمنٹ کا ہفتہ وار اجلاس ہوا جس میں انہوں نے بڑے شہروں کے ماسٹر پلان کو ازسر نو مرتب کرنے کے عمل کو تیزکرنے، اس بارے پیش رفت پر باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کرنے کی ہدایت کی ۔وزیراعظم کو کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں رجسٹر مال گزاری (کیڈاسٹری)،سرکاری اراضی کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے اور ڈیجیٹلائزیشن کے منصوبے پر پیش رفت بارے بریفنگ دی گئی۔کراچی ٹرانسفارمیشن پلان” کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’’کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ کی کامیابی کے لیے مختلف منصوبوں پر مقررہ ٹائم لائنز میں عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے بااختیاراور مؤثر نظام تشکیل دیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ کراچی کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ انتظامی اختیارات کا منقسم ہونا رہا ہے ،حالات کا تقاضا ہے اختیارات ایک بااختیار ایڈمنسٹریٹر / لوکل گورنمنٹ کو تفویض کیے جائیں۔