عدالت عظمیٰ کو کے الیکٹرک کا جواب

558

عدالت عظمیٰ کی جانب سے کے الیکٹرک اور حکومت کے گٹھ جوڑ پر برہمی اور حکومت کو کے الیکٹرک کا منشی قرار دیے جانے کے اگلے ہی روز اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اپنے اجلاس میں عدالت عظمیٰ کو بتا دیا کہ کے الیکٹرک کی کیا اہمیت ہے۔ آفت زدہ شہر کراچی کے لیے بجلی ایک روپیہ اور دو روپے 39 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ تاجروں نے اس فیصلے کو مسترد کردیا ہے لیکن تاجروں کے مسترد کرنے سے کیا ہوگا۔ بل میں تو اضافی روپے چارج ہوں جائیں گے۔ اصل چیز تو اضافہ روکنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کے الیکٹرک مافیا اور حکومت منشی ہے اور وہ شہریوں کو بجلی نہیں دیتی اور حکومت کو ایک روپیہ نہیں دیتی تو پھر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کس خوشی میں کے الیکٹرک کو 2016ء سے 2019ء کے زمانے کے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی مہنگی کرنے کی اجازت دی ہے۔ رابطہ کمیٹی نے کے الیکٹرک کے لیے 4 ارب 70 کروڑ روپے کی سبسڈی بھی منظور کی ہے۔ اس حوالے سے خبریں گنجلک ہیں کہیں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ سبسڈی سے ادائیگی ہوگی لیکن یہ جملہ بہت واضح ہے کہ اضافے کا اطلاق ستمبر سے ہوگا۔ اکتوبر کے بل میں اضافی چارجز شامل ہوں گے گویا اگلے تین ماہ بجلی کے استعمال میں کمی کے باوجود کے الیکٹرک کی آمدنی کم نہیں ہوگی۔ عدالت عظمیٰ ہی پوچھ سکتی ہے کہ آفت زدہ شہر میں تو ٹیکس اور بل معاف کیے جاتے ہیں۔ بجلی مہنگی کیوں کی جا رہی ہے۔ لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ عدالت عظمیٰ کو جو کرنا تھا یعنی جو ریمارکس دینے تھے وہ دے دیے اب حکومت اور کے الیکٹرک فیصلہ کریں گے۔ کے الیکٹرک کے معاملے میں حکومت کی مہربانیاں بڑھتی جا رہی ہیں جس سے لگتا ہے کہ کے الیکٹرک اور حکومت کے مفادات یکساں ہیں۔ ایک ایسے ادارے کو رعایتیں دینا جس کے خلاف نیب نے بھی تحقیقات شروع کر دی ہیں جبکہ اضافی بلوں اور دیگر معاملات میں کے الیکٹرک کے گھپلے بھی ریکارڈ پر آچکے ہیں۔