کے الیکٹرک نہیں سب مل کر کھاتے ہیں

484

عدالت عظمیٰ کے سربراہ جناب جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ حکومت کے الیکٹرک کی منشی بنی ہوئی ہے اور شہری یرغمال ہیں۔ عدالت پاور ڈویژن پر بھی برہم ہے۔ انہوں نے کے الیکٹرک اور پاور ڈویژن کی ملی بھگت کا ذکر کیا کہ پاور ڈویژن کی رپورٹ کے الیکٹرک سے پیسے لے کر بنائی گئی ہے۔ پاور ڈویژن کے جس افسر نے رپورٹ بنائی اسے پھانسی دے دینی چاہیے۔ کیوں نہ ایسی رپورٹ پر جوائنٹ سیکرٹری کو ملازمت سے فارغ کر دیں۔ ہم نے موجودہ حالات پر رپورٹ مانگی تھی انہوں نے مستقبل کی رپورٹ دے دی۔ ابھی کیا کر رہے ہیں۔ پاور ڈویژن والوں کو کراچی لے جائیں دیکھیں لوگ ان کو کیسے پتھر مارتے ہیں۔ کراچی جا کر ان لوگوں کا دماغ ٹھیک ہو جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کے الیکٹرک کراچی کے عوام کو بجلی اور حکومت کو ایک روپیہ بھی نہیں دیتی۔ حکومت میں ملک چلانے کی اہلیت و صلاحیت نہیں اس کی رٹ کہاں سے ایسے پاکستان چلائے گی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی ریمارکس دیے ہیں۔ چیف جسٹس نے بجا کہا ہے کہ عوام کے الیکٹرک کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے کہ حکومت کے الیکٹرک کی منشی بنی ہوئی ہے۔ جناب کوئی منشی بھی پیسوں کے بغیر کام نہیں کرتا اور یہ لوٹ مار کا کام ہے، کے الیکٹرک دراصل لوٹ مار کرنے والوں کا نقاب ہے۔ لوگ کے الیکٹرک کو برا کہتے ہیں بالکل ٹھیک کہتے ہیں لیکن کے الیکٹرک ڈنکے کی چوٹ سارے کام کرے، حکومت کی ناک کے نیچے سوئی گیس کے بل ادا نہ کرے، پی ٹی وی کے پیسے کھا جائے، فرنس آئل سے بجلی نہ بنائے بلکہ بجلی ہی نہیں بنائے۔ اپنی مرضی کے میٹر نصب کرے اپنی مرضی سے اضافی بل بھیجے اور حکومت کا کوئی ادارہ نوٹس نہ لے۔ اس سے کیا بات اخذ کی جا سکتی ہے؟؟ صرف یہی کہ سب مل کر کھا رہے ہیں۔ ایک بات چیف جسٹس نے کہی ہے کہ پاور ڈویژن کے افسر کو کراچی لے جائیں لوگ پتھر ماریں گے۔ جی اب ایسا نہیں ہے کراچی والوں میں سے حق بات کے لیے کھڑے ہونے کی حس پینتیس برس ایم کیو ایم کی حکومت اور بکائو اور خوفزدہ میڈیا نے مل کر نکال دی ہے بلکہ بہت گہری دفن کر دی ہے۔ یہ حس اب بڑی مشکل سے بحال ہو گی کہ لیاقت آباد میں سرکاری پارٹی کے جلسے میں نوجوان وزیراعظم کو جوتا دکھا دے۔ اب تو عدالت ہی اس کے الیکٹرک کے دفاع میں کھڑی نظر آتی ہے۔ اگر جوتے مارنے ہوتے یا وہ حس باقی ہوتی تو کم ازکم میئر کسی وجہ کے بغیر دو آنسو بہا کر پرامن طریقے سے نکل نہیں جاتے۔ جوتے پڑنے سے جو آنسو نکلتے وہ حقیقی بھی ہوتے اور پر اثر بھی۔ لوگ جوتے اس وقت مارتے ہیں جب ملک کے ادارے کام نہیں کر رہے۔ اور یہ حالات پیدا ہو چکے ہیں ممکن ہے کچھ عرصہ اور گزر جائے اور لوگ ایسا کرنے لگیں کیونکہ کراچی کے ساتھ مذاق تو جاری رہے گا۔ امداد، ترقی، بحالی کے وعدے ہوتے رہیں گے۔ یہ وعدے کرنے والوں کے اطمینان کے لیے خبر آئی ہے کہ اب اس موسم کی بارش نہیں ہوگی یا کم ازکم تیز بارش نہیں ہوگی۔ بس اب اطمینان سے وعدے کر سکتے ہیں۔ پانی خود چلا جائے گا۔ کچھ سڑکوں کی مرمت ہو جائے گی، میٹرو بس کا افتتاح ہو جائے گا اور واہ واہ ہو جائے گی۔ متحدہ پیراشوٹ کے ذریعے مسلط رہنا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی اب یہی راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے اسے اس کے لیے سلیکٹرز کی مدد بھی حاصل ہے لیکن اگر یہ لوگ کراچی سے مخلص ہیں تو شفاف مردم شماری کرائی جائے۔ شہر کی آبادی درست بتائی جائے۔ پھر نئی حلقہ بندی کرکے شفاف انتخابات کرائے جائیں اگر دو نمبری کی گئی تو دو نمبر ہی اس شہر پر مسلط ہوں گے۔ یرغمال شہریوں کو نجات دلانے کے لیے چیف جسٹس اور ان کی ٹیم کو بڑی ہمت اور محنت کا مطاہرہ کرنا ہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کہتے ہیں کہ کراچی کے لیے اربوں روپے جاری ہوئے، خرچ کچھ نہیں ہوا۔ میئر کراچی نے ایک نالی بھی نہیں بنائی۔ جناب یہ بات بالکل درست ہے کہ کراچی کے لیے اربوں روپے میں سے کچھ خرچ نہیں ہوا۔ عدالت عظمیٰ اس پر سخت گرفت کرے۔ لیکن یہ بات غلط ہے کہ میئر نے چار سال میں ایک نالی بھی نہیں بنائی۔ یہ میئر تو وہ ہیں جنہوں نے کراچی میں ہر سرکاری دفتر سے اپنے مرکز 90 تک نہر بنائی تھی۔ یہ نہر لندن تک دودھ اور شہد پہنچاتی رہی ہے۔ اب بھی کوئی نہ کوئی نہر تو بنائی ہوگی جس کا بعد میں پتا چلے گا۔