صوبائی وزیر صنعت وتجارت کا بدین میں بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورہ

128

بدین (نمائندہ جسارت)صوبائی وزیر برائے صنعت و تجارت اور انسداد بدعنوانی و محکمہ امداد باہمی جام اکرام اللہ دھاریجو بدین کے بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورے کیا جبکہ بدین سرکٹ ہائوس میں اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت بھی کی۔اس اجلاس میں ان کے ہمراہ ایم پی اے تنزیلا قنبرانی، ایم پی اے تاج محمد ملاح، پیپلز پارٹی ڈسٹرکٹ بدین کے صدر محمد رمضان چانڈیو، حاجی سائیں بخش جمالی ،جنرل سیکرٹری پی پی ضلع بدین، پیپلز پارٹی لیڈیز ونگ ضلع بدین جنرل سیکرٹری ساجدہ ٹالپر سمیت ڈپٹی کمشنر بدین ڈاکٹر حفیظ احمد سیال، اے ڈی سی ٹو بدین بابر خان نظامانی، اسسٹنٹ کمشنر یونس رند، ایکسیئن پبلک ہیلتھ بدین فیصل خاصخیلی سمیت دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر بدین نے بارش سے متاثرہ علاقوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ برسات سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے ریلیف کے کام جاری ہیں۔ صوبائی وزیر نے ڈپٹی کمشنر بدین کے ہمراہ بارش کے پانی کی نکاسی کے انتظامات کا جائزہ لیا۔ اس موقع پرصوبائی وزیر نے کہا کہ بارش سے متاثرہ علاقوں میں نکاسی آب کو یقینی بنایا جائے جبکہ حکومت سندھ بارش سے متاثرہ افراد کی ہر ممکن مدد کرے گی۔ بارشوں سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔ بدین ضلع میں15 سے 20 ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں ان کے لیے سندھ حکومت خیمے اور راشن کی فراہمی کے لیے کام کر رہی ہے اور اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ کو بدین ضلع کے لیے مزید فنڈنگ کے لیے گزارشات کروںگا۔ انہوں نے کہا کہ بدین کے پانچوں تحصیل میں ریکارڈ 269 ملی میٹر برسات سے سخت متاثر ہیں لیکن سب سے زیادہ متاثر ٹنڈوباگو تحصیل ہوئی ہے اور ان تحصیلوں میں اندازاً 4 ہزار سے زائد مکان مکمل تباہ ہوئے ہیں جبکہ کپاس، چاول، ٹماٹر، پیاز اور دیگر سبزیوں کی فصل کو بھی نقصان ہوا ہے جس کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پھلیلی گھونی و دیگر سیم نالوں کی ری ماڈلنگ کی اشد ضرورت ہے جبکہ پھلیلی گھونی سیم نالا میں سے 16سو کیوسک پانی کے گزرنے کی گنجائش ہے لیکن اس وقت 3200 کیوسک پانی گزر رہا ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع بدین میں تقریباً 5 ہزار ٹینٹ اور 10 ہزار راشن بیگ کی ضرورت ہے جو سندھ حکومت جلد فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو سندھ کے لوگ نظر ہی نہیں آتے ہیں جو اتنا بھاری نقصان ہونے کے باوجود وفاقی حکومت نے کوئی ایمرجنسی ریلیف نہیں دیا۔