عالم عرب میں تیل کے عہد کی شام

801

عالم عرب میں تیل کے ذخائر دریافت ہوئے تو صرف عربوں کے حالات ہی نہیں بدلے بلکہ یہ خوش حالی کے ایک ایسے سورج کا طلوع ثابت ہوا جس کی کرنوں نے دنیا کے بہت سے ملکوں کو منور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تیل کی دریافت اگر ایک انقلاب تھا تو اس سے عرب سے باہر کی دنیا بھی مستفید ہوئی۔ بالخصوص ہمارے شہر ودیہات نے عرب دنیا کی خوش حالی اور دولت کی ریل پیل کے باعث ترقی کی ایک لمبی قلانچ بھری۔ اس سے پہلے ہمارے ہاں دولت کی تقسیم کی وہی بنیادیں قائم تھیں جو انگریز کے معاشی نظام کی مرہون منت تھیں۔ زمیندار، تجارت پیشہ اور ملازمت پیشہ لوگ معاشرے میں کسی حد تک بہتر زندگی گزارتے تھے۔ یہ بہتری بھی اتنی زیادہ نہیں تھی کہ عیاشی کی حد تک پہنچتی بس ایک بھرم تھا جو انہیں اپنے گردوپیش سے ممتاز کیے رکھتا تھا۔ عرب میں تیل نکلا تو وہاں تعمیر وترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا۔ اس مقصد کے لیے عربوں کو افرادی قوت کی ضرورت تھی۔ ایسے جفاکش بازوئوں اور توانا ہاتھوں کی ضرورت تھی جو ریگزاروں کو گلزاروں میں بدلتے۔ عربوں نے ہمارے لوگوں پر معاش کے دروازے کھول دیے اور یوں لوگ جوق درجوق خلیجی ریاستوں میں جانے لگے۔ وہاں وہ کس قدر سخت اور دشوار زندگی گزارتے تھے یہ تو الگ معاملہ ہے مگر انہوں نے اپنے گھروں، دیہاتوں اور شہروں کو ریالوں اور درہموں کے ذریعے بدلنا شروع کیا۔ یہ زیادہ تر مزدور پیشہ لوگ تھے اور ہمارے ہاں معاشی طور پر دبے ہوئے تھے اس لیے عرب سرمائے سے ہمارے شہر ودیہات انقلاب آشنا ہوتے گئے۔ ہمارے زمیندار ملازمت اور تاجر پیشہ لوگ اس انقلاب کی لہروں کا شکار ہو گئے اور یوں ایک مدت سے قائم سماجی نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا۔ کچے گھر پختہ ہونے لگے۔ مٹی کی چھتوں کی جگہ جستی چادریں چمچمانے لگیں۔ گھروں میں آسائش کی بہت سے چیزیں پہنچ گئیں۔ جن گھروں میں دو وقت کی روٹی کا سامان مشکل تھا ان میں بدیسی ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر اور ٹیلی ویژن بولنے لگنے۔ ان کے کچن باہر کی کراکری سے آراستہ اور ان کے تن جاپانی کپڑوں سے مزین ہونے لگے۔ اس معاشرے کے روایتی معززین اور خوش حال لوگ اس انقلاب کو حیرت اور حسرت سے تکنے پر مجبور تھے۔ اس طرح عرب دنیا کی معاشی کروٹ نے ہمارے معاشرے کو ترقی کے ایک نئے دور سے آشنا کیا۔
برطانیہ کے معروف جریدے ’’دی اکانومسٹ‘‘ کی یہ اطلاع حد درجہ چونکا دینے کا باعث بنی کہ عرب دنیا میں تیل کے دور کا خاتمہ قریب آپہنچا ہے اور اس سے عرب تو متاثر ہوہی رہے ہیں مگر اس کا کرب ودرد بھی دور دور تک محسوس کیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ عرب دنیا کی خوش حالی کے مثبت اثرات جہاں جہاں پہنچے تھے اب اس معیشت کے زوال اور ترقی معکوس کے اثرات سے وہ ممالک اور معاشرے کیونکر بچ سکتے ہیں؟۔ عالم عرب سے بے روزگار ہو کر آنے والوں کے قافلوں کی صورت آنے والے دور کے آثار ہویدا ہیں۔ اکانومسٹ کا یہ مضمون ہمارے لیے حد درجہ اہم ہے کہ حال ہی میں ہمارے ہاں سعودی عرب کی بھارت سے دوستی اور تین بلین ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر کے قرض کی فوری واپسی پر خاصی لے دے ہو چکی ہے۔ اکانومسٹ نے جو تصویر پیش کی اس میں موجودہ حالات میں سعودی عرب کی طرف سے تین بلین ڈالر کا ملنا بھی کم اہم نہیں تھا۔ عرب دنیا اب معاشی بقا کے مسئلے سے دوچار ہے اور یہ معاشی مشکلات سیاسی طور پر بھی ان معاشروں اور حکومتوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اس میں پاکستان کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے کہ عربوں کی معیشت میں خرابی کے اثرات جب یہاں پہنچیں گے تو پیدا ہونے والے حالات کی کوئی پیش بندی کی جا چکی ہوگی؟ یا ہمارے قومی مزاج کے عین مطابق افتاد پڑنے کے بعد ہاتھ پائوں مارنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا؟۔
اکانومسٹ نے اس کہانی کو ’’ایک عہد کی شام‘‘ کا شاعرانہ عنوان دیا ہے۔ گویا کہ عرب دنیا میں تیل کی ریل پیل کا دور اور دن اب شام کے دھندلکے میں ڈھل رہا ہے۔ اکانومسٹ لکھتا ہے کہ گزشتہ کئی عشروں سے تیل کی آمدنی پر انحصار کرنے والے عربوں کے تیل کا زمانہ اب ختم ہونے جا رہا ہے۔ ان کے لیے اپنے بجٹ پورے کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ 40ڈالر فی بیرل کی قیمت کے ساتھ قطر کے سوا کوئی ملک متوازن بجٹ نہیں بنا سکتا۔ کچھ عرب ملک اس صورت حال سے مقابلے کے لیے سخت اقدامات اُٹھا رہے ہیں۔ مئی میں الجزائر نے سرکاری اخراجات نصف تک لانے کا اعلان کیا۔ عراقی وزیر اعظم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کے منصوبے پر غور کر رہے ہیں۔ عمان قرض لینے پر مجبور ہوگیا۔ کویت میں بدترین حالات ہیں جس کا مالیاتی خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے چالیس فی صد تک پہنچ سکتا ہے۔ سعودی عرب نے سیلز ٹیکس میں تین گنا اضافہ کر دیا ہے مگر اس کے باوجود اسے 110ارب ڈالر خسارے کا سامنا ہے۔ کورونا کی وجہ سے سفری اور تجارتی سرگرمیوں میں کمی تیل کی قیمت کو انتہائی کم سطح پر لے آئی ہے۔ حالات نارمل ہونے کے بعد قیمت قدرے بڑھی ہے مگر طلب میں اضافہ نہیں ہوا۔ دوسری
جانب عالمی معیشتیں توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ فاضل رسد اور متبادل ذرائع کے ساتھ مسابقت کا مطلب ہے کہ مستقبل میں تیل کی عالمی قیمت میں اضافے کا امکان نہیں۔ تیل سستا ہی رہے گا۔
چار سال قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ویژن 2030 کا منصوبہ تیار کیا جس کا مقصد تیل پر انحصار ختم کرنا تھا۔ سعودی ولی عہد کے کنسلٹنٹ کے مطابق 2020 ہی 2030 بن گیا ہے۔ اکانومسٹ لکھتا ہے کہ آئی ایم ایف کے مطابق مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ملکوں کی تیل کی آمدنی 2012 میں دس کھرب ڈالر سے زیادہ تھی جو 2019 میں کم ہوکر پانچ سو پچھتر ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ رواں سال تیل کی فروخت سے انہیں بمشکل 300ارب ڈالر ملیں گے جو اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس صورت حال سے وہ ممالک بھی متاثر ہوں گے جن کے شہریوں کا روزگار گزشتہ کئی دہائیوں سے ان ملکوں سے وابستہ ہے اور جہاں سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ ان کی مجموعی قومی پیداوار کا دس فی صد ہے۔ اس وقت سعودی معیشت 444بلین ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ خطے کی سب سے مضبوط معیشت ہے مگر وہ بھی دوسال تک ہی تیل موجودہ قیمت پر فروخت کر سکتی ہے۔ سعودی عرب نے سرکاری ملازمین کا لیونگ الاونس معطل کرکے پٹرول کی قیمت بڑھا کرسیلز ٹیکس میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے باوجود اس کا رواں سال کا بجٹ خسارہ 110بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کا حل ٹیکس اور مزید ٹیکس ہے جس کا اثر عام آدمی پر پڑتا ہے اور اس کا غصہ بڑھتا ہے وہ سوچتا ہے کہ حکمران اپنے محلات فروخت کرکے عام آدمی کی طرح زندگی کیوں نہیں گزارتے۔ اکانومسٹ کا یہ مضمون عرب دنیا کو درپیش معاشی چیلنج کی نشاندہی کرتا ہے مگر حالات کے اس آئینے میں ہمیں اپنا مستقبل بھی دیکھنا چاہیے۔