لاڑکانہ ، پیپلز پارٹی میونسپل اسٹیڈیم ، جامعہ بینظیر بھٹو منصوبے مکمل نہ کراسکی

234

 

لاڑکانہ (نمائندہ جسارت) پاکستان پیپلز پارٹی کئی دہائیوں سے لاڑکانہ پر حکومت کرتی آرہی ہے، پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو بھی اس شہر لاڑکانہ کو پیرس بنانا چاہتے تھے، یہ وجہ تھی کہ شہید بے نظیر بھٹو نے اپنے مختصر دور اقتدار میں کوشش کی کہ لاڑکانہ میں ترقیاتی کام کروائے جائیں، شہید بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سابق صدر آصف زرداری نے اپنے دور اقتدار میں ایک بار پھر لاڑکانہ کو پیرس بنانے کا عظم کیا لیکن اگر پیپلز پارٹی کے گزشتہ 12 سالہ دور اقتدار کی بات کی جائے تو لاڑکانہ کے شہریوں کی نظر میں پیپلز پارٹی اپنی سابق شہید وزیر اعظم کے نام سے منسوب میونسپل اسٹیڈیم، جامعہ بے نظیر بھٹو، بے نظر بھٹو میوزیم سمیت دیگر منصوبے مبینہ کرپشن کے باعث آج تک مکمل نہیں کرسکی۔ لاڑکانہ میں ترقیاتی منصوبوں کی مد میں 90 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے کی باز گشت جب سندھ ہائی کورٹ میں سنی گئی تو ایک بار پھر لاڑکانہ کے اندرون و بیرون روڈ راستے بنائے گئے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شہر کے بیرون روڈ سمیت سرکلر روڈ بہتر بنائے گئے جہاں لوگوں کو آمد رفت میں بہت آسانی ہے تاہم اگر شہر کے اندر کے روڈ راستوں کی بات کی جائے تو ماسوائے چند روڈوں کے آج بھی شہر کھنڈر کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں دو ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود صفائی ستھرائی اور سیوریج کا ناقض نظام شہریوں کے لیے باعث اذیت ہے۔ حالیہ بارشوں میں ہی بلدیہ عظمیٰ کی کارکردگی کی قلعی کھل کر سامنے آ گئی تھی کہ ہر روڈ راستہ تالاب کا منظر پیش کررہا تھا، شہر میں لگایا گیا سولر لائٹ سسٹم بھی ناکارہ نکلا اور آج بھی لوڈشیڈنگ کے دوران رات گئے شہر اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔ شہر کے ندی نالوں کی صفائی کے ٹھیکے جس طرح دیے گئے اور وہ صفائی جس طرح ہوئی شہری اس پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لاڑکانہ پیپلز پارٹی کا آئینہ ہے تاہم یہ آئینہ اب دھندلا چکا ہے۔ یہاں سے منتخب عوامی نمائندے بلاول زرداری، فریال تالپور تو کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ نثار کھوڑو یہاں سے نااہل ہوئے، ندا کھوڑو اور جمیل سومرو مخالف جی ڈی اے کے نمائندے سے جنرل الیکشن ہارے تو شہریوں کا یہ ہی ماننا ہے کہ حکمراں جماعت کو کارکردگی بہتر کرنی ہوگی۔ واضح رہے کہ سابق میئر محمد اسلم شیخ نے یکم ستمبر 2106ء کو چارج لیا اور 33 ماہ میئر کے عہدے پر رہنے کے بعد انہوں نے 10 مئی 2019ء کو اپنے عہدے سے استعفا دیا جس دوران میونسپل اکاؤنٹ میں 23 لاکھ موجود تھے جبکہ اقتدار کے اختتام پر 27 کروڑ روپے اکائونٹ میں چھوڑ کر گئے، جنہوں نے شہر کی 20 یونین کمیٹیز میں 33 کروڑ کے ترقیاتی کاموں کا بھی دعویٰ کیا تھا، جس میں سندھ حکومت کی کوئی معاونت نہیں تھی۔