اور عروس البلاد کراچی ڈوب گیا

437

گزشتہ دنوں شہر میں بارش کیا ہوئی تمام حکومتی کارکردگی کے دعوے دہرے کے دہرے رہ گئے کراچی شہر کی تعمیر وترقی اور صفائی و ستھرائی کا کام انجام دینے والے اداروں اور قومی سرمائے سے بھاری بھاری تنخواہیں بنانے والے حکومتی اہلکاروں کی فرض شناسی ان کا منہ چڑانے لگی ایسا لگا کہ یہ شہر بے امان ہے اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک طویل عرصہ سے اس شہر کے باسی اور فکر کرنے والے کہ جن کا جینا اور مرنا یہیں ہے اس شہر کے ذمے داروں کو ان کی غیر ذمے داریوں پر توجہ دلا رہے تھے کہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر تھے اور کہیں بوسیدہ سڑکیں جو اپنی تعمیر کے ابتدائی مرحلے ہی میں نظر آجاتی ہیں کہ سڑکیں ڈالنے والوں نے اہل علاقہ کو خوش کرنے کے لیے بڑا خوبصورت مذاق کیا ہے۔ یہ سڑکیں اتنی غیر معیاری ہوتی ہیں کہ تعمیر کے چند دنوں بعد ہی اپنی بوسیدگی کی کہانی سنانے لگتی ہیں، شہری ان نو تعمیر سڑکوں کی فوری ٹوٹ پھوٹ سے پہلے سے زیادہ پریشانیاں اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جبکہ قومی خزانے سے بنائی جانے والی ایسی تمام ہی سڑکیں ان کے بنانے والے ماہرین کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں حیرت اس بات کی ہے کہ کوئی بھی ادارہ اس قسم کی بدعنوانی پر کسی قسم کی کاروائی کرتا اور ذمے داروں کے خلاف ایکشن لیتا دکھائی نہیں دیتا کیا عدلیہ سے متعلق اہم افراد اور کرپشن کے خلاف کام کرنے والے اداروں کے افراد ان سڑکوں پر سفر نہیں کرتے یا وہ اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ کوئی شکایت کرے تو کارروائی عمل میں لائی جائے۔
قدرت کا بھی کیا خوب انتظام ہے کہ برستی بارش نے تمام حکومتی اداروں اور ان کے ذمے دارووں کی کارکردگی پر پڑی ہوئی چادر پانی میں ایسی بہائی کہ ہر طرف پانی ہی پانی دکھائی دینے لگا کیا گلیاں اور کیا سڑکیں خوب دریا کا منظر پیش کرنے لگیں، بارش کا پانی گھروں میں تباہی مچانے لگا شہر کا کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس گھر میں یا کاروباری ادارے میں پانی داخل نہیں ہوا ہو، جب بارش تھمی تو شہر کے لوگوں نے سکون کا سانس لیا گھنٹوں محنت کر کے لوگوں نے اپنے گھروں کی صفائی کی اور اپنے برباد ہونے والے سامان پر دل مسوس کر رہ گئے، بے شمار افراد کی برسوں کی کمائی برباد ہوگئی بے شمار افراد کی بچیوں کے جہیز کا سامان تباہ ہوگیا جو انہوں نے برسوں کی محنت کے بعد جوڑا تھا وہ کس سے جاکر اپنی فریاد کریں اور کس سے اپنا دکھڑا بیان کریں؟ یہاں تو کوئی پرسان حال نہیں اور سب سے زیادہ تکلیف دہ صورت حال جب پیدا ہوئی جب اعلیٰ سرکاری حکام اور اس شہر کہ ذمے داروں نے اپنی نا اہلی کو برسات کے سابقہ ریکارڈ بتا بتا کر چھپانے کی کوشش کی، مختلف علاقوں کے دورے کیے اور خالی خولی بڑی بڑی باتیں کرتے ٹی وی اسکرینوں پر دکھائی دیے، پریشان حال شہریوں کی دادرسی کا کوئی خاطر خواہ انتظام کہیں دکھائی نہیں دیا۔ اتنے تباہ کن حالات پر صرف بیانات سے کام چلانے کی بھر پور کوشش تاحال جاری ہے۔
بلدیات سے متعلق اداروں کا حال یہ ہے کہ وہ بارش کے بعد پانی نکال کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک بڑی ذمے داری پوری کردی حالانکہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے ایک طویل عرصے سے قائم ہیں اور ان کا ایک مکمل نظام ہے پھر اس قسم کی صورت حال پیدا ہونے کہ کیا معنی ہیں کیا ادارے کے ذمے دار صرف سرکاری وسائل سے تنخواہیں وصول کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں کیا پلاننگ اور ڈیولپمنٹ ان کی ذمے داری نہیں، شہر کی سیوریج کی صورت حال اتنی خراب کیوں ہے اور اگر نالے بند ہوجاتے ہیں تو اس کا ذمے دار کون ہے؟ ان نالوں کی صفائی کا ایک ٹریلر پی ٹی آئی کے ذمے داروں کی نگرانی میں چلایا جا چکا ہے آخر اس کا انجام کیا ہوا؟ کراچی جیتا جاگتا ایک مستقل اور قدیم شہر ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اولین ذمے داری ہے کہ اس شہر کی بلدیات کو ایک مکمل نظام کے ساتھ مسلسل فعال کیا جائے اداروں کو تقسیم کرنے کے بجائے ایک جامع میکنزم تشکیل دیا جائے اور اس نظام کی دیکھ بھال اور مانیٹرنگ کے لیے سول سوسائٹی کے فعال افراد پر مشتمل علاقائی سطح کی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تاکہ وہ علاقے میں کام کرنے والے بلدیاتی اداروں اور ان کے افسران کے ساتھ رابطہ کر کے مسائل کے حل میں اپنا اہم کردار ادا کرسکیں۔
ہمارے ملک کو ایک ذمے دار سیاسی اور انتظامی قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ قومی خدمت کی سوچ کے ساتھ ملک کے نظام کو جدید بنیادوں پر منظم کر کے مسائل کے سدباب کی ہر ممکن کو ششیں کی جائیں، اختیار کی رسہ کشی کو اب ختم ہو جانا چاہیے قومی ترقی اور بھلائی کی فکر رکھنے والے کبھی اختیار اور وسائل کا رونہ نہیں روتے بلکہ موجود وسائل کو بہتر بنیادوں پر استعمال کر کے قومی مسائل کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہماری بڑی بد قسمتی ہے کہ کہیں اختیارات کی کمی کو وجہ بنایا گیا اور کہیں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم پر شور مچایا گیا جب کہ سب ہی نے وسائل کی بہتی گنگا سے ہاتھ رنگے کسی کے پروٹوکول میں کمی آئی نہ کسی کی مراعات کم ہوئیں بلکہ جو جہاں تھا اس نے ذاتی مفادات پورے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اب سب کو اچھی طرح یہ بات سمجھ آجانا چاہیے کہ ہم اب 2020 میں زندگی گزار رہے ہیں آج کے بڑے ہی نہیں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی تعلیم یافتہ ہے اور مسائل پر نہ صرف گہری نظر رکھتی ہے بلکہ ہر جانب سے آنے والے بیانات کا بھی بہترین تجزیہ کرتی ہے جب لوگ میڈیا پر بے پر کی ہانک رہے ہوتے ہیں تو عوام کی ایک بڑی تعداد اس قسم کی گفتگو کرنے والوں کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتی اس کے باوجود لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ ارشاد فرمادیں گے عوام اس کو من وعن تسلیم کر لیں گے اب ایسا نہیں، کیوں کہ عوام بخوبی سمجھتے ہیںکہ معاملہ کیا ہے اور نشانہ کون ہے اب یہ وقت نہیں کہ عوام کو کسی طرح بھی بے پر کی سنا کر مطمئن کیا جاسکے اب عوام مسائل کا مستقل بنیادوں پر حل چاہتے ہیں۔ ایک مستعد
ذمے دار اور فرض شناس انتظامیہ اس ملک اور قوم کی اہم ضرورت بن گئی ہے۔ ملک کہ تمام ہی شعبے نااہل لوگوں کے زیر انتظام چلائے جانے کی وجہ سے ملک بے پناہ مسائل کا شکار ہورہا ہے کہیں پانی کی کمی کا مسئلہ ہے اور کہیں پانی کی نکاسی باعث پریشانی ہے کہیں تعلیمی اداروں کی بندش کا معاملہ ہے اور کہیں تعلیمی نظام میں نااہل افراد کی شمولیت کی وجہ سے میرٹ کا نظام مذاق بن کر رہ گیا ہے غرض زندگی کے کسی بھی شعبہ کو جائزہ لیں کہیں سے بھی خیر کی خبر سنائی نہیں دیتی اب تو یہ وقت ہے کہ عوام عدلیہ اور فوج کی طرف دیکھنے لگے ہیں کہ شاید وہ ہی اس ملک کے نظام کو بہتر کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکیں۔ کیا یہ عوامی نمائندے کیا صرف مراعات حاصل کرنے کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں جب یہ عوامی مسائل حل کرنے اور بیوروکریسی کی اصلاح کرنے اور اس کو عوامی بھلائی کہ کاموں میں لگانے میں ناکام ہیں تو عدالتیں انہیں ازخود نوٹس کے ذریعے عوامی نمائندگی کے لیے نا اہل کیوں قرار نہیں دیتیں، عدلیہ بھی عوامی حقوق کی نگہبان ہے عوامی حقوق کی فراہمی کے لیے تمام ترممکنہ اقدامات بروئے کار لائے اور ایسے تمام غیر ذمے دار قسم کے سرکاری ملازمین اور سیاسی کھلاڑیوں کو فارغ کر کے انتظامی اور سیاسی میدان سے باہر کرنے کہ لیے اپنا موثر کردار ادا کرے تاکہ آئندہ کسی بھی سیاست دان اور بیوروکریٹ کو عوامی مسائل سے صرف نظر کرنے کی ہمت نہ ہو اور ملک میں ایک ایسا کلچر فروغ پا سکے جس میں معاشرہ کا ہر ذمے دار فرد اپنی بساط سے بڑھکر ملک اور قوم کی خدمت کرنا اپنی زندگی کا مشن بنا لے ملک کی عدلیہ جب معاشرتی ترقی میں اپنا فعال کردار ادا کرے گی تو ملک کے تما م اداروں کی کارکردگی پر مثبت اثرات مرتب ہو ںگے۔