عامل بابا چلا گیا لیکن سوالات چھوڑ گیا

1678

ایک دن وہ سو کر اُٹھا تو اُس کے سینے میں تکلیف جاگی، اُس کو فوری طور پر ایک اسپتال میں لے جایا گیا۔ اس کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی، پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ رہے تھے، دل کی رفتار معمول سے سست ہو رہی تھی، وہ غنودگی میں گیا، پھر بے ہوش ہوگیا اور چند ہی دنوں میں کومے میں چلا گیا۔ ڈاکٹرز اس کو ادویات اور ڈرپس دیتے تو اس کی حالت کچھ دیر کے لیے بہتر ہو جاتی لیکن اس کے بعد وہ پھر تکلیف میں ہوتا، وینٹی لیٹر کی مشینیں اُس کی جسمانی ریڈنگنز دے رہی تھی لیکن اس کی روحانی ریڈنگنز صرف ایک عورت کے پاس تھی، جو اس کی بیوی تھی۔ اس کے علاج پر روزانہ لاکھوں روپے خرچ آ رہا تھا لیکن اخراجات کی ادائیگی اُس کی بیوی کا مسئلہ نہ تھے، اُس نے اپنے کام سے بے انتہا پیسہ کمایا تھا۔ و ہ اپنے علاقے میں ’’بابا جی سائیں سرکار‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ پہلے پہل اُس کے مریدین کی خاصی تعداد اسپتال اپنے پیر صاحب کو دیکھنے آتی تھی لیکن صرف پندرہ دنوں کے بعد ہی وہ اس اسپتال میں اکیلا تھا، وہ کومے میں تھا اور اس کے پاس صرف اس کی بیوی تھی۔
تقریباً ۲۰ دن کے بعد ایک سینئر ڈاکٹر نے فیصلہ کیا کہ جیسے دیگر مریضوں کے سرہانے سورۃ رحمن کا دم لگایا جاتا ہے، اسی طرح اس مریض کے سرہانے بھی دم لگا دیا جائے، انہوں نے سورۃ رحمن لگائی، سورۃ رحمن کی تلاوت سن کر مریض سکون میں چلا گیا، لیکن جیسے ہی سورۃ رحمن ختم ہوئی، مریض کے مرض کی شدت میں اضافہ ہو گیا، اس کے جسم کے مختلف حصوں سے کیڑے نکلنا شروع ہوگئے، یہ سفید رنگ کے کیڑے تھے، آئی سی یو وارڈ کی نرسوں کی دوڑیں لگ گئی، انہوں نے اِن کیڑوں کو ایک سرجیکل پلیٹ میں اکٹھا کیا، کیڑے نکلنا خود بخود بند ہوگئے، انہوں نے پلیٹ کو ڈاکٹر کو دکھایا، ڈاکٹر جہاندیدہ تھا، اُس نے اِس کی بیوی کو اپنے کمرے میں بلایا اور بتایا کہ آپ کے مریض کے پاس دن بہت کم ہیں، ان کے بچنے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اور جس طرح سے کیڑے نکل رہے ہیں، ہمارے پاس ان کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ میں یقین سے نہیں کہ سکتا لیکن میرے خیال کے مطابق یہ اللہ کی پکڑ میں ہے، اس نے زندگی میں کچھ ایسا ضرور کیا ہے، جس کی جزا یہ یہاں بھگت رہا ہے، آپ اپنا فیصلہ کیجیے تاکہ ہم اپنا فیصلہ کر سکیں۔
اس کی بیوی خاموش بیٹھی تھی، اس نے کہا ڈاکٹر صاحب، آپ جو فیصلہ کرنا چاہیں، وہ کریں، میں اس کی بیوی نہیں ہوں، میں اس انسان کے ساتھ لیو ان ریلیشن شپ میں ہوں، میں اگرچہ شادی شدہ ہوں، لیکن یہ انسان میرا خاوند نہیں ہے۔ یہ ایک جادوگر تھا، یہ جادو کے زور پر ناممکن کو ممکن کرتا تھا، اس کا حلقہ مریدین بھی وسیع ہے، اس کی جائداد بھی ٹھیک ٹھاک ہے، لیکن اس شخص کا انجام دیکھ کر مجھے خوف آ رہا ہے۔ میں اولاد کی خاطر اس انسان کے پاس آئی تھی، دوران عمل اس نے مجھ سے جسمانی تعلقات قائم کیے اور آج سات سال ہو چکے ہیں کہ میں اپنے گھر سے فرار ہوں، ان کے نزدیک شاید میں مر چکی ہوں۔ اس کی بیوی نے کہا کہ یہ جادوگر شراب و شباب کا رسیاء ہے، کون سا کالا علم ہے جو اس کو نہیں آتا، میں اس کے ساتھ رہتی ہوں، میں جانتی ہوں کہ اس کا حرم ایک سے بڑھ ایک خوبصورت عورت سے آباد رہتا ہے، ایسا ہو نہیں سکتا کہ کوئی لڑکی اس کو پسند آ جائے اور وہ اس کو اپنے عمل کے زور سے اپنے بستر تک نہ لائے۔ اس نے عملیات میں ہر وہ کام کیا ہے، جس کو اللہ نے منع کیا ہے، جائے نماز اور قرآن کی حد درجہ بے حرمتی اس کے لیے روزانہ کا معمول تھا اور اس کے کالے عملیات کا حصہ تھا۔ یہ لوگوں کو دکھانے کے لیے بابا بنا ہوا تھا لیکن یہ انسان درحقیقت خود ایک حیوان تھا۔ یہ قرآن کی مختلف آیات کو بگاڑ کر تعویز بناتا تھا۔ اس کے پاس اپنے گھریلو حالات کی ستائی عورتیں، امتحانات میں کامیابی کے لیے بچے اور بچیاں، اولاد کے حصول کے لیے لڑکیاں، غربت کے ستائے لوگ، محبت کی شادی کے متلاشی، پرائز بانڈ، شوہر کو قابو میں کرنے کی خواہش مند عورتیں وغیرہ بکثرت آتی تھیں۔ لوگ نہیں جانتے تھے کہ یہ کیاکرتا ہے لیکن میں اس کے ساتھ رہتی ہوں، اس کا انجام دیکھ کر مجھے اللہ سے ڈر لگ رہا ہے، دعا کیجیے کہ اللہ مجھے معاف کر دے۔ وہ عورت یہ بات کر کے چلی گئی اور اس عور ت کے جانے کے دو دن بعد ہی وہ جادوگر بھی وینٹی لیٹر پر دم توڑ گیا۔ اس کی موت کے ساتھ ہی اُس کی لاش سے اس قدر شدید بدبوآ رہی تھی کہ اس کی لاش کو آئی سی یو سے باہر لان میں لایا گیا، اس بدبو کی وجہ سے اس کو سرد خانے رکھنا بھی ممکن نہیں تھا، اس کے مریدین اور بیوی کو اطلاع دی گئی لیکن بدبو کی وجہ سے کوئی بھی لاش کے پاس آنے کو تیار نہیں تھا، اس کی لاش کو صرف دو گھنٹے میں اسپتال کے عملے اور نجی این جی او نے قریبی قبرستان میں دفنا دیا۔ وہ جادوگر چلا گیا لیکن اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گیا۔
کوئی تو وجہ ہے کہ اسلام میں جادو کو حرام کہا گیا ہے۔ یہ جادوگر انسانی نفسیات سے کھیلتے ہیں جس میں حسد، جلد بازی اور مایوسی شامل ہے۔ یہ وہ تین چیزیں ہیں جنہیں اسلام نے اپنانے سے منع کیا ہے۔ اگر آپ تقدیر پر شاکر ہیں، اچھی اور بڑی تقدیر پر ایمان ہے، اللہ سے اچھا تعلق ہے، کسی سے حسد نہیں کرتے، نتائج کے حصول کے لیے جلد بازی نہیں کرتے اور حالات سے مایوس نہیں ہوتے ہیں تو پھر کوئی جادوگر آپ کو بہکا نہیں سکتا ہے۔ کوئی بھی کامیابی شارٹ کٹ سے ممکن نہیں ہے، اگر کسی کو شارٹ کٹ سے کامیابی ملتی ہے تو یقین کیجیے وہ سب کچھ چند سال کے لیے عارضی ہوتا ہے، دنیا میں ۹۹ فی صد لوگوں نے محنت اور انتھک محنت سے کامیابی حاصل کی ہے، لہٰذا شارٹ کٹ کی تلاش میں عاملوں کے پاس جا کر اپنی دنیا اور آخرت خراب کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟