جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان تعارف اور مقاصد

1793

 

شہزاد علی
ناظم نشرو اشاعت سندھ

دینی مدارس جو اسلام کا گہوارہ کہلاتے ہیں اور گزشتہ کئی صدیوں سے علمائے کرام کی بڑی تعداد ان مدارس سے فارغ ہوتی رہی ہے ان ہی علمائے کرام نے امت مسلمہ کی حقیقی رہنمائی فرمائی اور امت کو صراط مستقیم دکھائی۔ آج جب کہ دینی مدارس کے نوجوان اپنے اس عظیم مقصد کو بھول چکے ہیں، جن کی بنا پر انھیں داعیان اسلام کہا جاتا تھا، ان کو ازسر نو متحد کرکے منظم جدوجہد کا آغاز کرنا ہے جیسا کہ دنیا کا ہر مکتبہ فکر متحد ہے۔ مزدور، کسان، طلبہ سب اپنے مقامات پر منظم جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن صرف دینی مدارس ہی وہ جگہ ہے جہاں طلبہ کو اقامت دین کے حقیقی مقاصد اور نصب العین کے گرد جمع کرنے والا کوئی پلیٹ فارم موجود نہ تھا۔ بلکہ اکثر دینی مدارس فرقہ واریت کے مراکز اور مناظرہ بازی کے ادارے بن چکے تھے۔ جہاں فروعی مسائل، تعصب اور شخصیت پرستی کی بنیاد پر تعلیم دی جاتی تھی اور فاضلین مدارس ان ہی مقاصد کو لے کر معاشرے میں جاتے تھے جس کی وجہ سے ان ہی فروعی مسائل میں امت تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی۔
اس کے ساتھ ساتھ ان مدارس میں وسعت قلبی، باہمی رواداری کے فقدان کے ساتھ علمی تحقیق کے دائرے بھی بند ہوچکے تھے جس کی وجہ سے فارغ ہونے والے لوگ انھی فروعی مسائل پر تمام تر توانائیاں اور جوش خطابت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے صرف کرتے رہے۔ اس کام کے عملی نتیجے میں نماز کے لیے مسجدیں الگ، اذانیں الگ، خطیب اور امام الگ ہونے شروع ہوگئے امت میں اتحاد کی بجائے انتشار عام ہوگیا اور دورِحاضر کا نوجوان اس متعصبانہ کشمکش کی وجہ سے دین اسلام سے متنفر ہونے لگا تھا۔
انھی حالات کو دینی مدارس کے چند پاکیزہ صفت نوجوانوں نے محسوس کیا اور اس طوفان کو روکنے کے لیے باہمی فروعی اختلافات، تعصبات، لسانیت اور مسلکی بتوں کو توڑ کر دینی مدارس کے نوجوانوں کو ِانَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ ﴿الحجرات 49:10﴾ کا پیکر بنانے، فرقہ واریت کے خلاف طلبہ کو رواداری کے ر استے پر رکھتے ہوئے باہم مل بیٹھنے کا درس دینے اور امت مسلمہ کو درپیش حالات و چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے10محرم الحرام1395ھ مطابق13 جنوری1975ء کو لاہور میں جمع ہوئے اور جمعیت طلبہ عربیہ کا قیام عمل میں لایا۔
۱- طلبہ کو اسلام کا تحقیقی علم حاصل کرنے اور اس کو عملاً اپنانے کی دعوت دینا۔
۲- دینی مدارس کے ایسے طلبہ جو عقائد اسلام کے تحفظ اور قرآن و سنت کے مطلوبہ انقلابِ امامت کا جذبہ رکھتے ہوں، جمعیت کے تحت منظم کرنا۔
۳- جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان سے وابستہ طلبہ کے لیے اسلام اور جدید علوم کے گہرے مطالعے، اخلاق و کردار کی تطہیر و تعمیر، تحریر و تقریری، ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے فروغ کا موثر انتظام کرنا۔
۴- اختلافی مسائل میں طلبہ کے اندر اعتدال پیدا کرنا اور انھیں فرقہ واریت، شخصیت پرستی اور سیاسی اور علاقائی تعصبات سے بالاتر رکھتے ہوئے نَّمَا الْمُؤْمِنُوْنََ ِخْوَۃٌ کا مصداق بنانا اور اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے منظم ہر اول دستہ بنانا۔
۵- پاکستان میں نظامِ تعلیم کو مکمل طور پر اسلامی تقاضوں کے مطابق بنانے کی جدوجہد کرنا اور مدارسِ عربیہ کے طلبہ کے جائز مطالبات اور مسائل حل کرانے کی بھرپور کوشش کرنا۔
طلبہ میں علمی تحقیق کا جذبہ
جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان دینی مدارس کے نوجوانوں میں تقریر و تحریر کے ساتھ فروغ و اشاعتِ علم کا جذبہ پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ فریضۂ اقامت دین کے لیے نوجوان علمی اسلحہ سے مسلح ہوکر مستقبل میں عظیم خدمات سر انجام دے سکیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے صحیح نقش قدم پر چل سکیں۔
اس جذبہ صادق کے تحت آج جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان بھی اپنے نوجوانوں کو مستقبل کے عظیم اسلامی انقلااب کے لیے تیار کر رہی ہے تاکہ دینی مدارس کے یہ نوجوان آج ہی سے اپنے مقام اور مرتبہ کو پہچان لیں۔
۲- پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنا
جمعیت دینی مدارس کے نوجوانوں میں پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنا چاہتی ہے، جس کے لیے تحریری، تقریری، فکری، تنظیمی اور تدریسی صلاحیتیں پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ جمعیت کے پلیٹ فارم پر آنے کے بعد طلبہ کو فطری رجحان کی طرف آگے بڑھانے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں اور جمعیت اپنے شبانہ روز پروگرامات کی وجہ سے ان صلاحیتوں کو نکھارتی ہے۔ آج امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے الحمدللہ جمعیت اپنے تربیت یافتہ نوجوانوں کو تیار کر رہی ہے۔
۳- انفرادیت کے مقابلہ میں اجتماعیت کا جذبہ
آج جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان دینی مدارس کے نوجوانوں کو تنہائی کی گھاٹیوں سے نکال کر اجتماعی سوچ و فکر کی طرف لانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اس لیے اجتماعی پروگرامات، علمی و دینی مجالس اور مذاکروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دینی مدارس کا ہر طالب علم امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل کو سمجھنے لگا ہے۔ خواہ وہ مسلمان دنیا کے کسی کونے میں ہو، دینی مدارس کا طالب علم اپنے سینے میں اس کے درد کو نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ اس کے سدّباب و حل کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار ہوچکا ہے۔ جمعیت طلبہ عربیہ دینی مدارس کے طلبہ میں یہی اجتماعی سوچ پیدا کرتی ہے۔
اقامتِ دین کا جذبہ
جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان دینی مدارس کے نوجوانوں کو یہی درس دیتی ہے کہ جب ہم قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس کا عملی مظاہرہ خود اپنے جسم پر ظاہر ہونا چاہیے۔ پھر گھر، خاندان، محلہ، شہر اور پھر پورے ملک میں قرآن و سنت کی بالادستی ہونی چاہیے۔ اللہ کا دین مسجد و منبر تک یا انفرادی عبادت تک ہی محدود نہ ہو بلکہ عدالت، سیاست، معاشرت الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں خدائی قانون بالا و نافذ ہو، الحمدللہ آج جمعیت کا ہر نوجوان یہی چاہتا ہے کہ انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک اللہ کے دین کو غالب کر دے، خواہ اس کے لیے جان کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑ جائے
استقبالیے: مدارسِ عربیہ میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے آنے والے نئے طلبہ کے اعزاز میں حلقہ جات استقبالیوں کا انعقاد کرتے ہیں۔ جن میں نئے طلبہ کے علاوہ مقامی ادارے کے مدیر ان کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی ہے اور انھیں جمعیت طلبہ عربیہ کے قائم کرنے کے بنیادی مقاصد سمجھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ طلبہ کو داخلے میں درپیش مسائل حل کرنے اور ان کی رہنمائی کے لیے جمعیت کی طرف سے ہر حلقہ میں استقبالیہ کیمپ لگائے جاتے ہیں پر مجاہدین کے نمایندوں کی موجودگی میں ہوتا ہے۔
انسداد فحاشی و عریانی مہم: جمعیت طلبہ عربیہ کو ملک بھر میں جاری فحاشی و عریانی پر تشویش ہے۔ دوران سیشن مناسب موقع پر انسدادِ فحاشی و عریانی مہم چلائی جاتی ہے، جس میں عام افراد کو فحاشی کے انجام سے خبردار کیا جاتا ہے، خطبا حضرات سے خطوط کے ذریعے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ خطبات میں لوگوں کو فحاشی کے انجام سے ڈرائیں۔ اس کے علاوہ منتظم اعلیٰ محترم دیگر ذمہ داران اور کارکنان کی طرف سے صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کو ملک میں جاری فحاشی روکنے کے حوالے سے خطوط لکھے جاتے ہیں۔
امداد طلبہ مہم: نادار طلبہ کی مدد اور تعلیمی مسائل حل کرنے کے لیے امداد طلبہ مہم چلائی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ بھی جمعیت مناسب اوقات میں مختلف مہمات چلاتی ہے۔
مقابلہ جات
جمعیت طلبہ عربیہ طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے طلبہ کے اندر مختلف مقابلے کرواتی ہے۔ ان مقابلوں کا مقصد جہاں طلبہ کی صلاحیتوں کو نکھارنا ہے وہاں طلبہ کو امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر مل بیٹھ کر سوچنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ مقابلوں کی نوعیت مندرجہ ذیل ہوتی ہے:
تقریری مقابلے: طلبہ کے اندر تقریری صلاحیت کو اجاگر کرنے کے لیے صوبائی یا اضلاع کی سطح پر تقریری مقابلے ہوتے ہیں جو مختلف وقت کے لحاظ سے امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مثلاً: ’’سیرت کا پیغام اور ہماری ذمہ داریاں۔‘‘
تحریری مقابلے: تقریر کے ساتھ طلبہ کے زورِ قلم کو منوانے کے لیے تحریری مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ مقابلے بھی مختلف اوقات میں وقت کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ پوزیشن لینے والے طلبہ کو انعامات کے علاوہ ان کے مضامین کو ماہنامہ مشکوٰۃ المصباح میں بھی شائع کیا جاتا ہے۔
مقابلہ حسن قرأت و نعت: یہ مقابلے حفظ و تجوید کے طلبہ کے مابین کرائے جاتے ہیں، جن کا مقصد طلبہ کو قرآن کی تعلیم اور تجوید کی طرف راغب کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں اخوت اور محبت کا جذبہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں نعت خوانی کے مقابلے بھی کروائے جاتے ہیں۔
خصوصی پروگرامات
مرکزی شوریٰ ہر سال کچھ طویل المیعاد اور کچھ قلیل المیعاد منصوبے ترتیب دیتی ہیں۔ جمعیت کے قلیل المیعاد منصوبے تو آپ نے پڑھ لیے ہیں۔ طویل المیعاد منصوبے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے معاشرے کو باصلاحیت اور تربیت یافتہ افراد دیے جاتے ہیں، جو مختلف علوم و فنون میں مہارت رکھتے ہیں۔ کارکنان کی تربیت کے یہ منصوبے درج ذیل ہیں۔
تدریب المعلمین: درس نظامی کے ایسے فارغ التحصیل جو مستقبل میں تدریس کا ارادہ رکھتے ہوں، ان کے لیے تیس روزہ تدریب المعلمین کا پروگرام کیا جاتا ہے، جس میں مستقبل کے معلمین کو جدید طرق ہائے تدریس کے علاوہ مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں جب کہ جدید علوم اور نئے حالات کے چیلنجز سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔
دیگر مذاہب باطلہ و نظامہائے زندگی سے اسلام کا تقابلی مطالعہ بھی کروایا جاتا ہے۔ دس روزہ تربیت گاہ: منتخب کارکنان و رفقا کی خصوصی تربیت کرنے کے لیے مرکز کے تحت دس روزہ تربیت گاہ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں طلبہ کو درس قرآن اور درسِ حدیث دینے کا فن سکھایا جاتا ہے جبکہ منتخب موضوعات کا مطالعہ کروانے کے ساتھ ساتھ اس موضوع کو بیان کرنے اور اسی موضوع پر مقالہ لکھنے کی بھی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف پہلوئوں سے کارکنان کی خصوصی تربیت کی جاتی ہے۔ دس روزہ تربیت گاہ کرنے والے کارکنان حلقہ جات میں سب سے زیادہ دعوت و تنظیم کا کام کرنے لگتے ہیں۔ دورہ صرف و نحو: قرآن و حدیث کی زبان کو سمجھنے کے لیے ہم عربی گرائمر کے محتاج ہیں۔ طلبہ کے اندر اس کمی کو دور کرنے کے لیے ہر سال جمعیت دورہ صرف و نحو کا اہتمام کرتی ہے، جس میں طلبہ صرف و نحو کے قواعد کو ازبر کرنے کے علاوہ ان کا اجرا بھی کر لیتے ہیں۔
اس پروگرام کا دور انیہ ایک ماہ ہوتا ہے، جس کی تفصیل صوبہ جات خود طے کرتے ہیں۔
دورۃ اللغۃ العربیہ: برصغیر کے مدارس کا یہ المیہ رہا ہے کہ درس نظامی کے فضلا عربی زبان میں بول چال سے گھبراتے ہیں۔ جمعیت اپنے طلبہ کی اس جھجک کو دور کرنے کے لیے دورہ اللغۃ العربیۃ کا اہتمام کرتی ہے جس میں عربی زبان پر مہارت رکھنے والے اساتذہ کی نگرانی میں عربی بول چال سکھائی جاتی ہے یہ دورہ بھی تعطیلات میں ہوتا ہے۔ مربیین اساتذہ کا تعلق عرب ممالک سے ہوتا ہے۔
تربیت گاہ برائے تحقیق: علمی ذوق و شوق رکھنے والے طلبہ کی صلاحیت کو جلا بخشنے کے لیے مرکز جمعیت کے تحت دوران سال تربیت گاہ برائے تحقیق کی جاتی ہے، جس میں چیدہ چیدہ علمی موضوعات پر لیکچرز اور مطالعہ و اخذ کا طریقہ اور تحقیق کرنے کا فن سکھایا جاتا ہے۔ اس تربیت گاہ کے تحت مقالہ جات لکھنے اور نئے موضوعات پر شرعی نقطہ نظر معلوم کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ تربیت گاہ کا دورانیہ کم سے کم پانچ دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن کا ہوتا ہے۔
اس لیے آئیے! ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں اخوت کی، حمیت کی، رواداری کی، اعتدال کی، ترکِ فرقہ واریت کی، ترکِ لسانیت و علاقائیت کی اور ترکِ شخصیت پرستی کی۔
آئیے! مجاہدین اسلام بھی آپ کو پکار رہے ہیں کہ ہمارے شانہ بشانہ چلیے، عزت اسی میں ہے۔ ورنہ باطل و طاغوت کی تلوار لٹک رہی ہے۔