مغرب کے تصور آزادی کے پجاری

1469

اقبال نے کہا تھا ؎
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
واں کنٹر سب بلوّری ہیں یاں ایک پرانا مٹکا ہے
اس شعر میں ’’مسکینوں‘‘ کا لفظ سب سے زیادہ اہم ہے۔ یہاں مسکین کا مطلب مسکین نہیں ’’یتیم الفکر‘‘ لوگ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب اور اس کی اقدار پر وہی لوگ فریفتہ ہوسکتے ہیں جو یتیم الفکر ہوں۔ بدقسمتی سے مغرب بالخصوص مسلم دنیا میں یتیم الفکر لوگوں کی کمی نہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے جاوید احمد غامدی اور ان کے شاگردوں کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ خورشید ندیم جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید ہیں۔ خورشید ندیم نے اپنے ایک حالیہ کالم میں مغرب کے تصورِ آزادی کی پوجا کرتے ہوئے کیا لکھا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’میرا احساس ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ایک پہلو سے خود کو انسانی فطرت سے ہم آہنگ بنایا اور وہ ہے شخصی آزادی کا تصور۔ سرمایہ دارانہ تصورِ انسان ادھورا ہے۔ اس پر اُٹھنے والے اعتراضات میرے علم میں ہیں۔ تاہم اس نے انسان کے بعض فطری مطالبات کو دریافت کیا اور ان کو بنیاد مان کر ایک نظام حیات ترتیب دیا۔ اس نے اس راز کو سمجھا کہ آزادی انسان کا فطری مطالبہ ہے اور اس کو رد کرتے ہوئے کوئی نظام، معاشی ہو یا سماجی، قابل عمل نہیں ہوسکتا۔
کھلی منڈی کے تصور اور فرد کی معاشرتی آزادی کے خیال نے، سرمایہ دارانہ نظام کو انسانوں کے لیے قابل قبول بنادیا۔ اس نظام میں انسان کے جسم ہی پر نہیں، اس کے ذہن پر بھی اس کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا۔ حریت ِ فکر کو بنیادی قدر مان لیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ گزشتہ ایک صدی میں، جب نظری تقسیم زیادہ واضح ہوئی، فکر و فلسفے میں ارتقا کے تمام مظاہر مغرب ہی میں سامنے آئے۔ یہاں تک کہ اسلامی علوم اور فکر میں بھی اگر نئے دریچے وا ہوئے ہیں تو مغرب میں‘ الاماشااللہ۔
سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جو معاشرہ وجود میں آیا، اس نے انسان کی حیرتِ فکر کو ایک قدر کے طور پر قبول کیا اور یوں ہر آدمی جو آزادی ٔ فکر پر مفاہمت نہیں کرتا یہ خواہش رکھتا ہے کہ اسے کسی مغربی ملک میں رہنے کا موقع ملے۔
سرمایہ داری کو اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دنیا بھر کی ذہانتیں ان ممالک میں جمع ہوگئیں اور یوں بالواسطہ یا بلاواسطہ اس نظام کی ترقی و ارتقا میں شریک ہوگئیں۔ یہ کسی نظام کی اتنی بڑی کامیابی ہے جس کا صرف خواب دیکھا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس نظام کے زوال کی بات ہوتی ہے تو مجھے قبول کرنے میں تامل ہوتا ہے۔ میرے نزدیک کسی نظام کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ انسانی فطرت سے کتنا قریب ہے۔ اس کا تصورِ انسان کتنا فطری ہے۔ اس بات کو معاصر نظاموں میں سرمایہ داری سے بہتر طور پر کوئی نہیں سمجھ سکا‘‘۔ (روزنامہ دنیا 25 جولائی 2020)
مغرب کے تصورِ آزادی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ تصورِ آزادی مخصوص معنوں میں ’’مطلق‘‘ ہے۔ یعنی اس تصورِ آزادی نے خدا کا انکار کیا ہے۔ آخرت کا انکار کیا ہے، انسانی فکر پر وحی کی بالادستی کا انکار کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا تصور انسانی فطرت سے کیونکر ہم آہنگ ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ انسانی فطرت میں خدا اور اس کی موجودگی کا شعور خلقی طور پر موجود ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایسے تصورِ آزادی کو ایک اسلامی معاشرے میں ’’Ideal‘‘ اور ’’عظیم‘‘ بنا کر کیونکر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اقبال نے ساری زندگی آزادی کے ترانے گائے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے۔
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زِندگی
٭٭
سنا ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
مگر اس کے باوجود اقبال نے صاف کہا ہے۔
ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
٭٭
گو فکرِ خدا داد سے روشن ہے زمانہ
آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
کتنی عجیب بات ہے کہ اقبال جس آزادی فکر کو حیوان بنانے کا طریقہ باور کرارہے ہیں وہ مغرب کے جس مطلق تصور آزادی کو ’’ابلیس کی ایجاد‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ خورشید ندیم اس فکر کو انسانی فطرت سے ہم آہنگ قرار دے کر اسے ایک مسلم معاشرے میں بہت بڑے آئیڈیل کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ یہی وہ یتیم الفکری ہے جس کا اقبال نے اپنے شعر میں ذکر کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اقبال نے آزادیِ افکار کو ابلیس کی ایجاد کیوں کہا ہے؟۔
ابلیس کا کام یہ ہے کہ وہ انسانی نفس کی خواہشات کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ نفس کہتا ہے خدا کی موجودگی کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ ابلیس اس سلسلے میں انسان کو چار دلائل سکھا دیتا ہے۔ نفس کہتا ہے حلال و حرام بیکار کی بات ہے۔ ابلیس حرام کو مرغوب بنا کر انسان کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے۔ نفس کہتا ہے وحی انسانی فطرت پر ایک جبر کے سوا کچھ نہیں۔ ابلیس انسان کو وحی کے ’’جبر‘‘ سے نجات کی راہیں سُجھا دیتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے آزادیِ افکار کو ابلیس کی ایجاد قرار دیا ہے۔ لیکن اقبال نے تو یہ بھی کہا ہے کہ اگر فکر خام ہو تو آزادی ٔ افکار انسان کو حیوان بنانے کے طریقے کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال کی یہ بات بھی درست ہے۔ شیکسپیئر نے کہا ہے ’’Ripeness is all‘‘۔ یعنی پختگی ہی سب کچھ ہے۔ اسی لیے وحی کا علم ہی سب کچھ ہے۔ اسی کی روشنی میں انسان صراطِ مستقیم کو تلاش بھی کرسکتا ہے اور اس پر چل بھی سکتا ہے۔ مغرب کی آزادیِ افکار کا یہ عالم ہے کہ مغرب کے فلسفے کی پوری روایت تردید در تردید کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ مغرب کا ایک فلسفی ایک بات کہتا ہے اور دوسرا فلسفی اس کی تردید کردیتا ہے۔ دوسرا فلسفی جو کچھ کہتا ہے تیسرا فلسفی اسے اُٹھا کر ایک طرف پھینک دیتا ہے۔ تیسرے فلسفی کے افکار کو چوتھا فلسفی تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔ خام فکر تضادات کے سوا اور کچھ پیدا کر ہی نہیں سکتی۔ کتنی ہولناک بات ہے کہ غامدی صاحب اور ان کے شاگرد معاشرے میں آزادی ٔ فکر کے نام پر خام فکر کو عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ اس کے ساتھ وہ عظمت وابستہ کررہے جو صرف وحی اور اس کے زیر اثر پروان چڑھنے والی فکر سے وابستہ کی جاسکتی ہے۔ مغربی فکر اگر تردید در تردید کا سلسلہ ہے تو وحی کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی فکری روایت تصدیق در تصدیق کا ایک سلسلہ ہے۔ سیدنا آدمؑ نے ’’حقیقت‘‘ کے بارے میں انسانوں کو جو بات بتائی سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا موسیٰؑ، سیدنا عیسیٰؑ اور نبی اکرمؐ نے بھی حقیقت کے بارے میں انسانیت کو وہی بات بتائی۔ امام غزالی نے عقاید، عبادات اور اقدار کے بارے میں جو کچھ ارشاد کیا مولانا مودودی نے بھی مختلف اسلوب میں عقاید، عبادات اور اقدار کے بارے میں وہی بات کہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے معنی نہیں بدل سکتے۔ البتہ معنی کے اظہار کے سانچے بدلتے رہے ہیں بدلتے رہیں گے۔ یہ ہوتی ہے فکر کی پختگی۔
اسلامی فکر میں نفس کے سات درجوں کا تصور موجود ہے۔
(1) نفسِ امارّہ۔ (2) نفسِ لوامہ۔ (3) نفسِ مطمئنہ۔ (4) نفسِ مُلہمہ۔ (5) نفس راضیہ۔ (6) نفسِ مرضیہ۔ (7) نفسِ مطلق۔
اسلامی فکر کہتی ہے جو شخص نفسِ امارہ سے بلند نہیں ہے اسے ’’آزاد‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ ’’غلام‘‘ ہے۔ آزادی کا سلسلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ نفسِ امارّہ سے اُوپر اُٹھ کر نفسِ لوامہ اور نفسِ لوامہ سے اُوپر اُٹھ کر نفسِ مطمئنہ کا حامل ہوتا ہے۔ آزادی کا یہ سفر نفسِ مطلق پر ختم ہوتا ہے۔ مغربی تہذیب مغربی فکر اور مغرب کا تصورِ آزادیِ افکار کبھی نفسِ امارّہ سے بلند نہیں ہوپاتا۔ وہ کبھی نفسِ لوامہ اور نفسِ مطمئنہ میں نہیں ڈھلتا۔ اس لیے مغرب کی آزادی فکر بھی غلامی ہی کی ایک صورت ہے۔ بدقسمتی سے جاوید احمد غامدی کے شاگرد اس غلامی کو ایک اسلامی معاشرے میں Ideal بنا کر پیش کررہے ہیں۔ بلاشبہ مغرب نے آزادی فکر کے ذریعے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بڑی ترقی کی ہے مگر انہوں نے اس فکر کے زیر اثر خدا کو کھودیا ہے۔ رسالت کو گم کردیا ہے۔ وحی سے لاتعلقی اختیار کرلی ہے۔ معروضی اخلاق یا Objective morality کو تج دیا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے۔ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور مغرب کی فکر میں آخرت کی زندگی کا کوئی وجود ہی نہیں۔ کیا جاوید احمد غامدی کے شاگرد خورشید ندیم بھی چاہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ بھی صرف دنیا کی زندگی کو یاد رکھے اور آخرت کی زندگی کو بھول جائے۔
بدقسمتی سے مغرب کی آزاد فکری نے اس کی دنیاوی زندگی کو بھی جہنم بنادیا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ خورشید ندیم جہنم کو Ideal بنا کر پیش کررہے ہیں۔ مغرب کا خاندانی نظام ان کی آزاد فکری سے تباہ ہوچکا ہے۔ شوہر اور بیوی کے تعلقات زہر آلود ہوچکے ہیں۔ مغرب میں حرامی بچوں کی بہتات ہوگئی ہے۔ مغرب میں ہم جنس پرستی تیزی سے پھیل رہی ہے اور شادی کا ادارہ بقا کے مسئلے سے دوچار ہوچکا ہے۔ کیا غامدی صاحب کے شاگرد چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی ان تمام تجربات سے گزرے؟۔
مغرب اپنی آزادیٔ فکر کو مطلق اور عالمگیر کہتا ہے مگر بدقسمتی سے مغرب اس سلسلے میں جو کچھ کہتا ہے کرتا اس کے برعکس ہے۔ مغرب اپنے لیے آزادی پسند کرتا ہے اور پوری دنیا بالخصوص مسلم دنیا کے لیے غلامی۔ وہ خود سیاسی طور پر آزاد ہے مگر اس نے مسلم دنیا کو سیاسی غلامی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ مغرب خود معاشی طور پر آزاد ہے مگر اس نے تیسری دنیا کے ملکوں کو اپنی معاشی غلامی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ مغرب کے جبر کا یہ عالم ہے کہ اب دنیا لباس اور غذا کے سلسلے میں بھی مغرب کی غلام بن چکی ہے۔ پوری دنیا مغربی لباس پہن رہی ہے اور مغرب کی غذائیں کھارہی ہے۔ مغرب اگر حقیقی معنوں میں آزادی پسند ہوتا تو وہ کبھی بھی دوسری اقوام کو اپنا غلام نہ بناتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مغرب کی فکری آزادی کا نعرہ ایک ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں۔ مغرب میں کتنی آزادیِ فکر موجود ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ مغرب کا کوئی بڑا ٹی وی چینل کبھی نوم چومسکی کو اپنے پروگرام میں نہیں بلاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نوم چومسکی مغربی ہونے کے باوجود مغرب بالخصوص امریکا کے ناقد ہیں۔ چوں کہ وہ مغرب کے ناقد ہیں اس لیے وہ ابلاغ کے مرکزی دھارے میں کہیں موجود نہیں۔