امارات اسرائیل گٹھ جوڑ‘ اسرارو رموز

715

 

۔13اگست کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کا اعلان ایسا معمولی واقعہ نہیں تھا، جسے امت مسلمہ نظر انداز کردیتی۔ ویسے تو عرب ممالک کے کئی دجالی طاقتوں کے ساتھ مراسم ہیں، لیکن ابوظبی حکومت کے اعلان کا مطلب واضح طور پر مسجد اقصیٰ اور ارضِ فلسطین کی آزادی کی جدو جہد کرنے والے مجاہدین سے غداری تھا۔ فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کی جانب سے ابتدا میں بیان سامنے آیا کہ اماراتی حکام نے یہ سمجھوتے خطے میں اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے کیے ہیں۔ فوراً بعد اس کی تصدیق بھی ہوگئی جب عالمی میڈیا پر خبریں آنا شروع ہوئیں کہ اماراتی حکومت کو امریکی ساختہ جدید ترین ایف 35 جیٹ طیارے فراہم کیے جائیں گے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے مشیر اور یہودی داماد جیرڈ کشنر کا بیان اس صورت حال میں بہت اہم ہے کہ ابوظبی اور تل ابیب کے درمیان سمجھوتے کے بدلے میں جدید امریکی طیارے ملنے کے امکانات بڑی حد تک روشن ہوگئے ہیں۔ میڈیا کے سامنے نئے یہودی حلیف عرب ملک کی صفائی پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اماراتی حکومت طویل عرصے سے ایف 35 طیارے حاصل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ ان کے بیان سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ابوظبی حکومت کا فیصلہ کوئی ہنگامی پیش رفت نہیں، بلکہ اس نہج تک پہنچنے کے لیے ایک طویل عرصہ لگا ہے۔
متحدہ عرب امارات کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل سے ہونے والے سمجھوتوں کا ایران سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب تک دنیا کو یہی بتایا جاتا رہا کہ جزیرہ عرب کو تہران سے شدید خطرات لاحق ہیں اور دنیا بھر میں بالخصوص مشرق وسطیٰ میں ہونے والی ہر طرح کی تخریب کاری کی جڑیں ایران تک پہنچتی ہیں۔ سعودی عرب کی 2 آئل فیلڈ پر حملہ ہو یا یمن میں باغی حوثیوں کی پشت پناہی، ہر سمت میں ایران کو ملوث باور کرایا جاتا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر ریاستوں کی تگ و تاز کو تہران دشمنی پر منتج کیا جاتا ہے۔ ایک طرف تو امریکا 2015ء کے جوہری معاہدے سے انخلا کے بعد ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں بحال کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور دوسری طرف شام میں جاری تنازع کے تناظر میں ایرانی حمایت یافتہ لبنانی حزب اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔ ان حالات میں تل ابیب کے ساتھ امارات کے تاریخی سمجھوتے کو ایران مخالف قرار نہ دینا بہت حیر انگیز ہے۔ تاہم اگر عالم اسلام اور دجالی قوتوں کے درمیان جاری کشمکش کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس بیان کی صداقت میںکوئی شبہہ نہیں رہتا۔
امریکا کے جیٹ ایف 35 طیاروں کا جب نام آتا ہے تو ساتھ ہی روس کے جدید ترین میزائل دفاعی نظام ایس 400 کا بھی ذکر لازماً کیا جاتا ہے۔ روس اور امریکا کے جوہری ہتھیاروں کی تحقیق کے لیے ایک علاحدہ آرٹیکل کی ضرورت ہے۔ بظاہر ان دونوںجدید ٹیکنالوجیوں کے درمیان لزوم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ قضیہ اس وقت شروع
ہوا جب تُرکی نے روس سے میزائل دفاعی نظام خریدنے کے لیے مذاکرات شروع کیے۔ ناٹو کا رکن ہونے کے ناتے انقرہ کو بہت سی مراعات حاصل ہیں اور واشنگٹن نے اسے اپنے ایف 35 پروگرام میں شامل کررکھا تھا۔ دونوں حکومتوں کے درمیان معاہدے کے تحت جیٹ طیارے کے پُرزوں کی تیاری کے لیے تُرکی میں فیکٹری قائم کی گئی اور تُرک پائلٹ امریکا میں جدید طیاروں کی تکنیک حاصل کرنے کے لیے تربیت حاصل کررہے تھے۔ ایس 400 خریدنے کی خبریں سامنے آتے ہی امریکا نے شدید مخالفت کی اور واشنگٹن کی جانب سے تند وتیز بیانات اور دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ تُرکی کے صدر رجب طیب اِردوان نے اس موقع پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر طرح کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کردیا، جس کی انتہا ایف 35 معاہدہ ختم ہونے کی صورت میں ہوا اور امریکا نے تُرک پائلٹوں کو بے دخل کرکے پُرزوں کی تیاری کا سمجھوتا بھی ختم کردیا۔
دنیا کی صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو عالم کفر اور بھیڑوں کی کھال اوڑھے نام نہاد مسلم حکمراں بھیڑیوں کا مشترکہ دشمن اس وقت تُرکی کے سوا اور کوئی نہیں ہے، جس کے اولوالعزم رہنما رجب طیب اِردوان نے اپنی دور اندیشی کے باعث اسلام و کفر کی نظریاتی کشمکش میں باطل کا ناک میں دم کررکھا ہے۔ گو کہ ایران نے لبنان، عراق، شام اور یمن میں ملیشیائیں قائم کرکے اپنی عسکری جد وجہد جاری رکھی ہوئی ہے، تاہم امریکا نے یورپی ممالک کے گٹھ جوڑ سے اسے محدود کردیا ہے۔ ادھر تُرکی کی سرگرمیاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ انقرہ کی فوج ایک طرف شمالی عراق میں علاحدگی پسند کردستان ورکرز پارٹی کے جنگجوؤں سے نبرد آزما ہے تو دوسری طرف شام میں منبع امن آپریشن کے نام سے شامی اپوزیشن اور مزاحمت کاروں کا ساتھ دے رہی ہے۔ تُرکی نے لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ
حکومت کی امداد کے لیے معاہدہ کرکے امارات اور روس نواز باغی حفتر ملیشیا کو اپنا دشمن بنالیا ہے، جب کہ بحیرئہ روم میں تیل و گیس کی تلاش کے لیے کھدائی شروع کرنے پر یونان اور قبرص نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔ یورپی یونین کو دوغلی پالیسیوں کے باعث کسی طور پر تُرکی کا دوست نہیں کہا جاسکتا، لیکن 2016ء میں شام سے آنے والے مہاجرین کے سیلاب کو اپنے ملک میں پناہ دے کر تُرکی نے یورپی یونین کا منہ بند کردیا ہے اور کسی ملک کی براہ راست عسکری کارروائی کی دھمکی دینے کی جرأت نہیں ہوپا رہی۔ انقرہ نے اپنی اسٹرٹیجک پالیسیوں کے تحت دشمنوں کو ایسے پھانس رکھا ہے کہ وہ کسی نہ کسی محاذ پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے انقرہ کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں۔ امریکا بحیثیت ناٹو اتحادی اور شام میں روس اور اسدی فوج کے مقابلے میں اپنے قدم جمانے کے لیے تُرکی کی حمایت کرنے پر مجبور ہے۔ انقرہ نے 30 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو بے دخل کرکے یورپی سرحد پر جمع کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے، جس کے بعد سے یورپ بھی دباؤ کا شکار ہے۔ لیبیا میں فائز سراج کی حکومت کی عسکری امداد پر تُرکی کو اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے۔ شمالی شام میں موجود کُرد ملیشیا کو امریکا بھی دہشت گرد قرار دیتا ہے اور واشنگٹن کے دباؤ کے تحت بغداد حکومت بھی محض احتجاج کرنے پر اکتفا کرتی ہے۔
اب ہم آتے ہیں دوبارہ امارات کو ملنے والے ایف 35 کی طرف۔ تُرکی کی حکومت نے پہلے ہی یہ خطرہ بھانپ لیا تھا کہ امریکا دنیا کو اپنے جدید طیارے فراہم کرکے تُرکی کو بلیک میل کرسکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے طیارہ شکن ایس 400 کو امریکی جیٹ پر ترجیح دی۔ گوکہ ابھی تک تُرکی کو میزائل نظام ایف 35 پر آزمانے کا موقع نہیں ملا، تاہم وہ ایس 400 کو بارہا امریکی ایف 16طیاروں پر آزما چکا ہے۔ اس سیاق و سباق میں ابوظبی حکومت کا دبے الفاظ میں ایران کو دشمن قرار نہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ ایف 35 طیارے ملنے کے بعد اس کا سب سے بڑا دشمن تُرکی کے سوا اور کوئی نہیں ہوگا۔ ادھر خبریں آرہی ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے ابوظبی کو طیارے دینے کی مخالفت کردی ہے، جس کے باعث یو اے ای نے ناراض ہوکر تل ابیب اور امریکی حکام سے ہونے والی ملاقات منسوخ کردی ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ امارات کے پاس اپنے فیصلے سے واپسی کا اب کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کے متعفن وجود کو اب دین کی جدوجہد کرنے والے مسلمان قبول نہیں کریں گے، ہاں عالمی طاقتیں کسی نہ کسی طور پر اسے دانہ ڈال کر رام کرہی لیںگی۔