“تاریخ اسلامی اور محرم الحرام”

1716

تحریر: مفتی محمد نعیم

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ کے آغاز اور خود آسمان و زمین کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ کے طے کردہ نظام کے مطابق ایک سال میں بارہ مہینے ہی ہوا کرتے تھے اور ان بارہ مہینوں میں چار مہینے ایسے ہیں کہ اسلام کی آمد سے قبل عہد جاہلیت کے عرب کفار مکہ بھی ان کی حرمت اور احترام کے قائل تھے۔ چناں چہ وہ اپنی جاری جنگوں کو بھی ان مہینوں میں موقوف کردیا کرتے تھے۔ قرآن پاک نے اس کی طرف ’’منھا اربعۃ حُرُم‘‘ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔ ان چار مقدس مہینوں کے اندر محرم الحرام کا مہینہ بھی شامل ہے اور حُسن اتفاق سے اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہی محرم الحرام کہلاتا ہے۔ تاریخ انسانی کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات بھی اْبھر کر سامنے آتی ہے کہ اسلام سے قبل اس مہینے کے اندر بہت سارے اہم واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں نے اس مہینے میں پائے جانے والے جن واقعات کو محفوظ کیا ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:٭اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی۔ ٭نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان نوح کے بعد جودی نامی پہاڑ کے قریب آکر ٹھہری۔٭یوسف علیہ السلام کو اس مہینے میں قید سے رہائی حاصل ہوئی۔ ٭ایوب علیہ السلام کو طویل بیماری کے بعد شفا نصیب ہوئی۔ ٭یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی۔ ٭موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور آل فرعون سے اس طرح نجات ملی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون سمیت اس کی فوجوں کو بحیرہ قلزم میں غرق کردیا۔ ٭عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اْٹھا لیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ مندرجہ بالا تمام واقعات کا تعلق دین اسلام کی آمد سے قبل سے ہے اور تاریخی کتابوں سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ تمام واقعات محرم الحرام کی دسویں تاریخ جسے عاشوراء یا عاشورۂ محرم کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، کو پیش آئے تھے۔اسلام کی آمد کے بعد بھی بعض اہم واقعات محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو پیش آئے، جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں: ٭سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اسی روز (یعنی دس محرم الحرام کو) اہلِ مکہ، خانۂ کعبہ پر غلاف چڑھایا کرتے تھے۔ (بخاری ومسلم) ٭جب کہ اس مہینے کے آغاز میں سیدنا عمر فاروقؓ پر قاتلانہ حملہ تو 28 ذی الحجہ کو ہوا تھا، لیکن شہادت یکم محرم الحرام کو ہوئی۔ ٭دس محرم الحرام کی تاریخ وہ ہے جس میں نواسۂ رسولؐ، سیدنا حسینؓ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ قیامت کا وقوع بھی دس محرم الحرام اور جمعہ کے دن ہوگا۔

عاشوراء محرم، محرم الحرام کی دسویں تاریخ کا نام ہے اور محرم الحرام کے پورے مہینے میں جو تقدیس آئی ہے وہ اس تاریخ اور دن کی وجہ سے ہے اور اسے مقدس جانتے ہوئے گزشتہ آسمانی مذاہب سے تعلق رکھنے والی قومیں بطور شکرانہ اس کا روزہ رکھتی رہی ہیں۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے شریعت اسلامیہ میں بھی بطور فرض عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا رہا ہے۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد عاشورہ کے روزے کی فرضیت تو منسوخ ہوگئی، لیکن عاشورہ کے دن کی تقدیس برقرار ہے۔ چناںچہ یہ فرمادیا گیا کہ اب جس کا دل چاہے، اس دن کاروزہ رکھے اور جس کا دل چاہے، اسے ترک کردے۔ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد نبیؐ کے سامنے یہ بات لائی گئی کہ مدینہ منورہ کے یہودی عاشورہ محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے، جب ان یہودیوں سے اس روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے یہ بات بتائی کہ ہمیں فرعون سے نجات اسی دن حاصل ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس نعمت کے شکرانے کے طور پر ہم اس دن کا روزہ رکھا کرتے ہیں۔دین اسلام چونکہ ایک مستقل مذہب ہے اور اس مذہب نے اپنے سے پہلے کے مذاہب کی چند باتوں کو بھی اپنے اندر سموتے ہوئے ان مذاہب کو منسوخ کردیا ہے۔ ان کے ماننے والوں کی مخالفت کا حکم دیا ہے، تاکہ اْن مذاہب سے یہ مذہب ممیز و ممتاز ہوجائے، لہٰذا نبی اکرمؐ نے یہ بات ارشاد فرمائی کہ آئندہ سال دس محرم الحرام کے روزے کے ساتھ میں نو محرم الحرام کا روزہ بھی اگر اس دنیا میں رہا تو ضرور رکھوں گا۔ (مسلم)

چنانچہ اس ارشاد مبارک کی روشنی میں فقہائے کرام یہ مسئلہ بتاتے ہیں کہ صرف دس محرم الحرام کا روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ بھی ملالیا جائے یعنی محرم الحرام کی نو اور دس تاریخ کا روزہ رکھے یا دس اور گیارہ تاریخ کا روزہ رکھے۔ نبی اکرمؐ نے اس روزے کے حوالے سے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص عاشورہ کا روزہ رکھے، مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید واثق ہے کہ اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کردیے جائیں گے‘‘۔ (مسلم)

فقہائے کرام نے گناہوں کی معافی کے حوالے سے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ ان سے مراد اللہ تعالیٰ کی چھوٹی چھوٹی نافرمانیاں ہیں، بڑے بڑے گناہ تو خود قرآن و حدیث کی تصریح کے مطابق بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ جہاں تک اللہ کے بندوں کے حقوق غصب کرنے کا تعلق ہے، وہ صاحب حق کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوتے، بعض روایات میں اس دن کے حوالے سے یہ بات ملتی ہے کہ ’’اگر کوئی شخص اپنے اہل خانہ پر عام دنوں کے مقابلے میں بہتر کھانے (اپنی استطاعت کے مطابق) کا انتظام کرے تو اللہ تعالیٰ پورا ایک سال اس کے رزق میں برکت عطا فرمائے گا‘‘۔ (مشکوٰۃ) مندرجہ بالا دو باتیں اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں کہ ان کا ذکر اور عمل قرون اْولیٰ میں بھی ثابت ہے۔ اس مہینے کے حوالے سے تاریخ اسلام کے دو اہم ترین واقعے یہ ہیں: یکم محرم الحرام کو امیرالمؤمنین، خلیفہ راشد سیدنا عمر بن خطابؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ سیدنا عمر بن خطابؓ تاریخ اسلام کی وہ مایہ ناز شخصیت ہیں کہ جن کے اسلام قبول کرنے کے لیے اور اسلام کو تقویت پہنچانے کے لیے نبیؐ نے بطور خاص اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی۔ (ترمذی )

تاریخ اسلام کا دوسرا اہم ترین واقعہ 10محرم الحرام کو سیدنا حسین ابن علیؓ کی شہادت کا ہے۔ یہ ایک ایسا اندوہناک سانحہ ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی کسک (ٹِیس) ہر مومن کے دل میں ہر اْس موقع پر اْٹھتی رہے گی، جب جب یہ واقعہ اس کے ذہن میں تازہ ہوتا رہے گا۔ تاریخی روایات کے مطابق سیدنا حسین بن علیؓ 4ھ میں شعبان کی 5 تاریخ کو پیدا ہوئے۔ رسول اللہ نے شہد چٹایا، اْن کے منہ کو اپنی بابرکت زبان سے تَر فرمایا، دعائیں دیں اور حسین نام رکھا۔ آپ نے کم و بیش (روایات کے مختلف ہونے کی وجہ سے) حیات نبوی کے کئی سال دیکھے۔ یہ اْن کی صحابیت کی ایک مضبوط دلیل اور علامت ہے۔ آپ کا جسم پاک رسول اللہ کے جسداطہر کے مشابہ تھا۔ آپ اپنے بھائی کے ساتھ بچپن میں نبیؐ کے سینہ مبارک پر سوار ہوکر کھیلا کرتے تھے اور ان سے محبت کا اظہار فرماتے ہوئے نبیؐ نے فرمایا: یہ دونوں (حسن و حسینؓ) دنیا میں میرے پھول ہیں۔ (طبرانی فی المعجم) نیز رسول اللہ کا یہ ارشاد مبارک حدیث کی کتابوں میں جگمگاتا ہوا ہمیں ملتا ہے اور حسن و حْسینؓ جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔

امیرمعاویہؓ کے بعد یزید نے مسند اقتدار سنبھال لیا تھا اور مسلمانوں سے اپنی خلافت کے حق میں خود اور اپنے کارندوں کے ذریعے بیعت لینا شروع کردی تھی سیدنا حسینؓ سے بھی مطالبہ کیا گیا لیکن چونکہ یزید کی بیعت خلافت نہیں، بلکہ ملوکیت تھی۔ حسینؓ نے بیعت سے سختی سے انکار فرمایا۔ تاریخی روایات کے مطابق بیعت نہ کرنے والے صحابہؓ سے یزید کے کارندوں نے بدسلوکی کا مظاہرہ کیا۔ سیدنا حسینؓ یزید کے ظلم سے عوام الناس کو بچانے اور دین کی سربلندی کی غرض سے کربلا کی طرف آئے تھے۔

سیدنا حسینؓ ان حالات کے اندر کربلا پہنچے، جہاں ان کے قافلے کو روکا گیا اور ان سے یزید کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، جسے آپ نے منظور نہیں فرمایا۔ 9محرم الحرام کو آپ کا پانی بھی بند کردیا گیا اور بالآخر اس معرکے میں سیدنا حسینؓ نے احقاق حق کی خاطر حق وصداقت اور جرأت وشجاعت کی بے مثال تاریخ رقم کرکے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد فرمادی۔

(نوٹ: یہ تحریر پہلی مرتبہ 21 اگست 2020 کو روزنامہ جسارت کے صفحے “فکر و عمل” میں شائع کی گئی تھی۔)