امام حسین کی شہادت کا سبق

1996

انسانی مزاج عظمت اور شہرت کے معاملے میں عجیب ہے۔ جو شخصیت، عظمت اور شہرت کی بلندی پر پہنچتی ہے۔ انسانی مزاج انہیں حقیقت کی نسبت افسانوی رنگ دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ لہٰذا عظمت، شہرت اور حقیقت کا آپس میں تعلق مبہم رہتا ہے۔ کتنا اور کہاں وہ تعلق تخیل کے دوش پر سوار ہو کر حقیقت کی حد سے باہر نکل جاتا ہے۔ کیوں کہ تقدس کا حصار افسانہ سرائی کے پیرائے اختیار کرلیتا ہے۔ لہٰذا یہ معلوم کرلینا ناممکن ہوجاتا ہے۔
ابن خلدون جو تاریخ اور فلسفہ کے بانی کہلاتے ہیں۔ انہوں نے یہ قاعدہ بیان کردیا کہ: ’’جو واقعہ دنیا میں جس قدر مقبول اور مشہور ہوگا اتنی ہی زیادہ افسانہ سرائی اُسے اپنے حصار میں لے لے گی۔ سیدنا حسینؓ کی شہادت شاید اسی کلیے اور قاعدے کے تحت افسانہ سرائی کے زبانی و کلامی ریشم میں لپیٹ کر رکھ دی گئی۔ یہ زبانی ریشم کچھ ایسا تخیلاتی ڈرامائی واقعات بیان کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے کہ سننے والے بجائے عمل کے نکات اکٹھے کرنے کے اُن واقعات ہی کو افسانہ سمجھ کر صرف سننے سنانے میں مگن ہوجاتے ہیں۔
اقوام عالم میں صرف مسلمان ہی وہ قوم ہے جو سب سے زیادہ شاندار تاریخ رکھتی ہے، کسی قوم کو زندہ کرنے اور زندہ رکھنے کے لیے اس قوم کی گزشتہ تاریخ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ لہٰذا آج یہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ قومیں جو اپنی کوئی باعظمت اور پُر شوکت تاریخ نہیں رکھتیں۔ فرضی افسانوں اور قصوں کے ذریعے اس کی تصنیف کرلیتی ہیں اور دوسری قوموں کی تاریخ کو مسخ کرنے اور اس کے افراد کو اپنی تاریخ سے غافل اور ناواقف رکھنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہیں۔ اس کی ایک قریبی مثال پڑوسی ملک بھارت ہے۔ جہاں روز اپنی تاریخ کے ساتھ مضحکہ خیز سائنسی حقائق جوڑے جاتے ہیں اور مسلمانوں کی تاریخ کو ببانگ دہل جھٹلانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
مسلمانوں نے جن تاریخ نویسی کی طرف جس احتیاط سے توجہ دی اور اپنے بزرگوں کی صحیح تاریخ مرتب کی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے لیے اصول حدیث اور السماء الرجال جیسے مستقل علم ایجاد کیے۔ روایات کی چھان بین اور تحقیق و تدوین کے لیے محکم اصول بنائے۔ اس سے پہلے اُن کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی ہے۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ مجلس خوانی کے شوق نے تاریخ کے بجائے تخیل کو زیادہ اہمیت دی جس کے باعث وہ مقصد جس کے لیے سیدنا حسینؓ نے اپنی اور اپنے خاندان کی جانوں کی پروا نہ کی کہیں لفاظی اور کہیں تک بندیوں کے تلے دبتا چل گیا۔ لہٰذا آج دس دن تک میڈیا پر دہرانے کے باوجود سوال کیا جاتا ہے کہ شہادت سیدنا حسینؓ کا مقصد کیا تھا؟ اور کربلا کا انقلاب سے کیا تعلق ہے؟۔
کربلا انقلاب کی قوت کا استعارہ ہے۔ یہ استعارہ تاریخ کے واقعات کے ساتھ مل کر ایک وجد آفرین کیفیت اور جذبات پیدا کرتے ہیں۔ جس کے باعث ہی کہا جاتا ہے کہ ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘۔ آئیے مقالات حسین کے ذریعے شہادت کے اس عظیم واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خلفائے راشدین کے عہد کے بعد یہ وہ واقعہ ہے کہ جس نے اسلام کی دینی، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے گہرا اثر ڈالا ہے۔
سیدنا حسینؓ نے کوفے کے راستے میں اپنے پہلے خطبے میں فرمایا: ’’اے لوگو! خدا کے سامنے اور تمہارے سامنے میرا عذر یہ ہے کہ میں اپنی طرف سے یہاں نہیں آیا ہوں۔ میرے پاس تمہارے خطوط پہنچے، قاصد آئے، مجھے بار بار دعوت دی گئی کہ ہمارا کوئی امام نہیں۔ آپؓ آئیے تا کہ خدا آپؓ کے ہاتھ پر ہمیں جمع کردے۔ اگر اب بھی تمہاری حالت یہی ہے تو میں آگیا ہوں۔ اگر مجھ سے عہد وپیمان کرنے کے لیے تیار ہو جن پر میں مطمئن ہوجائوں تو میں تمہارے شہر میں چلنے پر آمادہ ہوں، اگر ایسا نہیں ہے بلکہ تم میری آمد سے خوش نہیں ہو تو میں وہیں واپس چلا جائوں گا جہاں سے آیا ہوں‘‘۔ لیکن یزید کی فوج سیدنا حسینؓ کو بیعت کے بغیر جانے دینا نہیں چاہتی تھی اور گرفتار ہو کر اپنے آپ کو حوالے کردینا آپؓ کو منظور نہ تھا۔
باقاعدہ جنگ شروع ہوئی۔ لڑائی اپنی پوری ہولناکی سے جاری تھی۔ دوپہر ہوگئی، دشمن نے اپنی پوری قوت لگا ڈالی۔ یکے بعد دیگرے آپؓ کے اصحاب قتل ہوگئے۔ اب آپؓ پر نرغہ ہوا آپؓ فوج پر ٹوٹ پڑے تن تنہا اس کے قدم اکھاڑ دیے۔ راوی کہتا ہے کہ دشمن چاہتا تو آپ کو بہت پہلے قتل کر ڈالتا۔ مگر کوئی بھی یہ گناہ اپنے سر لینا نہیں چاہتا تھا۔ مگر اب وقت آچکا تھا۔ نیزہ آپؓ کے پار ہوا اور زمین پر گر پڑے۔ قتل کے بعد دیکھا گیا کہ آپؓ کے جسم پر نیزے کے تینتیس زخم اور تلوار کے چونتیس گھائو تھے۔ سیدنا حسینؓ کا سر ابن زیاد کے روبرو رکھا گیا مجلس حاضرین سے بھری تھی۔ ابن زیاد کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی وہ چھڑی آپ کے لبوں پر مارنے لگا۔ جب اُس نے یہ حرکت بار بار کی تو زید بن ارقم صحابی چلا اٹھے ’’ان لبوں سے اپنی چھڑی ہٹالے۔ قسم خدا کی میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہؐ اپنے ہونٹ ان ہونٹوں پر رکھتے تھے۔ اور ان کا بوسہ لیتے تھے۔ یہ کہہ کر وہ زار و قطار رونے لگے۔ ابن زیاد ناراض ہوگیا۔ بولا ’’خدا تیری آنکھوں رولائے۔ واللہ! اگر تو بوڑھا ہو کر سٹھیا نہ گیا ہوتا تو ابھی تیری گردن مار دیتا۔ زید بن ارقم یہ کہتے ہوئے مجلس سے چلے گئے۔ ’’اے عرب! آج کے بعد سے تم غلام ہو! تم نے ابن فاطمہؓ کو قتل کیا، ابن مرجانہ (یعنی عبیداللہ بن زیاد) کو حاکم بنایا وہ تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا ہے اور تمہارے شیروں کو غلام بناتا ہے۔ تم نے ذلت پسند کرلی۔
سیدنا حسینؓ کی شہادت آج سیکڑوں سال بعد بھی ایک ایسا غم ہے جس کو ہر سال تازہ کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ مقصد جس کے لیے انہوں نے اپنی اور اپنے خاندان کی جانیں قربان کیں اس کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ ان کی یہ عظیم قربانی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اُس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس کے مخالف کام کرتے رہیں تو ان کی ذات اور خاندان کے لیے گریہ وزاری، ان کے قاتلوں پر لعن طعن سے نہ وہ قیامت کے دن خوش ہوں گے اور نہ دنیا و آخرت میں ربّ العزت ہمارے اس عمل کی قدر افزائی کرے گا۔ یہ ضروری ہے کہ اس کے بارے میں سوچ و بچار کے بجائے کہ شہادت حسین کا مقصد کیا تھا؟؟
سیدنا حسینؓ کو جس چیز نے بے چین و بے قرر کرکے مدینے سے کوفے کو روانہ کیا تھا وہ دین کی بنیاد میں تبدیلی تھی۔ خلافت کو بادشاہت میں بدلنے کی جسارت تھی۔ آج بھی ایسے حکمران یزید کے وارث ہیں جو سیاست اور ریاست کے نام پر دین کی خصوصیات کو بدلنا چاہتے ہیں۔ سیدنا حسینؓ نے حق کے غلبے کے لیے جان دی۔ انہوں نے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے خاندان کو حق کی راہ میں قربان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ سیدنا حسینؓ کی یاد اور غم منانے والوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اُن کی سنت پر عل کے بغیر انہیں اُن کی یاد منانے کا کوئی حق نہیں۔ یعنی یہ مناسب نہیں کہ آپ غم منائیں اور غلبہ حق کے لیے کوشاں نہ رہیں۔ کسی کو سیدا الشہدا سے محبت ہے تو ضروری ہے کہ اپنے عمل کے اندر اس کا ثبوت بھی دے۔
سیدنا حسینؓ کی شہادت کا پہلا سبق دعوت الی اللہ اور حق کے لیے اپنے آپ کو اور اپنی سہولتوں، آرام اور آسائش کو قربان کرنا ہے۔ دوسرا سبق یہ یقین رکھنا ہے کہ ظاہری اسباب اگر میسر نہیں تو ان کی غیر موجودگی میں بھی حق کے لیے نکلنا سیدنا حسینؓ کی سنت ہے۔ اور اُن سے پہلے ان کے نانا سید الانبیا کی سنت ہے۔ نتیجہ اسباب نہیں مسبب الااسباب ہے۔ سیدنا حسینؓ نے تو اقبال کی زبان میں دنیا کو یوں حقیقت بتادی کہ
برتراز اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
……
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگی
……
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاک میں جاں پیدا کرے
سیدنا حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا کہ اس کی حکومت بادشاہت کا آغاز تھی۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ امت مسلمہ کے بیش قیمت سیاسی نظام کو بچانے کے لیے یہ کوئی مہنگا سودا نہ تھا۔ انہوں نے مومن کو یہ سبق پڑھا دیا کہ دین اسلام کے لیے یہ ایسی تباہی ہے جس کے لیے مومن کو اپنا سب کچھ قربان کرنا پڑے تو اس میں دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہی وجہ ہے اُن کا اس شہادت کو صرف ان کے لیے نہیں بلکہ اسلام کے لیے زندگی کی نوید کہا جاتا ہے۔ مولانا محمد علی جوہر نے سچ کہا ہے۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد