ہوتا ہے جادہ پیما

330

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
نائب امیر جماعت اسلامی

ہماری قومی و ملی تاریخ میں ماہ اگست کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ 14اگست 1947 ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا اور ہماری آزادی کی صبح طلوع ہوئی۔ پاکستان جغرافیہ کے ساتھ ساتھ نظریہ کا نام بھی ہے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کلمہ توحید ہے۔ 26 اگست 1941 ء کو اسی کلمہ توحید کی بنیاد پر عالم اسلام کی ایک بڑی اسلامی تحریک یعنی جماعت اسلامی تشکیل پائی۔ تاریخی شہر لاہور کی ایک معروف بستی اسلامیہ پارک میں برصغیر کے کونے کونے سے آنے والے نمائندگان کی کل تعداد صرف 75 تھی ۔ یہ عالم اسلام کے معروف و ممتاز عالم دین اور مفکر مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت پر جمع ہوئے ۔ آنے والے بیشتر افراد جوان بلکہ نوجوان تھے۔ یہ سب سنجیدگی و متانت کے پیکر اور اخلاص و مروت کے آئینہ دار تھے اور ان کے جمع ہونے کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ایک جماعت تشکیل دیناتھا۔
کسی بھی دینی یا سیاسی جماعت کی تاسیس کے موقع پر جشن کا سماں ہوتاہے ۔ مٹھائیاں بٹتی ہیں اور دعوتیں چلتی ہیں ۔ ہدیہ ٔ تبریک پیش ہوتاہے اور کلمات تحسین کہے جاتے ہیں لیکن جماعت اسلامی کی تاسیس کا یہ منظر منفرد اور انوکھا تھا ۔ اس موقع پر اس نئی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والا ہر فرد اٹھتا پہلے کلمہ شہادت پڑھتا ، تجدید ایمان کرتا ، پھر آنسوئوں اور آہوں کے درمیان حلف پڑھتا ۔ یہ 75 افراد کتنے خوش قسمت تھے کہ برصغیر میںاللہ کی حاکمیت قائم کرنے اٹھے تھے ۔ لوگ تو ذاتی اقتدار کے لیے جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں ۔ علاقائی تعصبات کی بنا پر پارٹیاں بناتے ہیں ۔ لسانی ترجیحات پر اکٹھے ہوتے ہیں ۔ شخصی قیادتوں کے سحر میں مبتلا ہو تے ہیں لیکن یہاں سب اس لیے اکٹھے ہو رہے تھے کہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند ہو ۔اس موقع پر ابتدائی چند ہ بھی جمع ہوا تو وہ پورے 75 روپے بھی نہ بنا۔ 74 روپے 9 آنے چند جمع ہوا ۔ اللہ کریم کو ان 75 افراد کا اخلاص اتنا پسند آیا کہ تقسیم ہند برصغیر تک اخلاص و محبت کے ساتھ دعوت و تحریک کے کام کے نتیجہ میں پیغام ہندو ستان کے کونے کونے میں پھیل گیا۔
چودہ اگست 1947 ء کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا اور برصغیر تقسیم ہو گیا تو جماعت اسلامی بھی تقسیم ہو گئی ۔ نام جماعت اسلامی ہی رہا ، کام دعوت دین ہی رہا ، مقام اہل ایمان کا دل ہی رہا لیکن تنظیمیں الگ الگ ہو گئیں ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے علاوہ ہندوستان ، سری لنکا ، مقبوضہ و آزاد کشمیر، نیپال میں مکمل طور پر علیحدہ اور بااختیار تنظیموں کے طور پر سرگرم ہوئی ۔ 1971 ء میں پاکستان دو لخت ہوا تب بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کا علیحدہ وجود ہوا۔ 75 افراد سے شروع ہونے والا یہ قافلۂ سخت جان ایسا شجر طیبہ ہے کہ جس کی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمان میں ہیں ۔ ان تمام ممالک میں جماعت اسلامی کے وابستگان کی تعداد اڑھائی کروڑ سے زیادہ ہے ۔
جماعت اسلامی معروف معنوں میں نہ مذہبی جماعت ہے نہ سیاسی جماعت ۔ اکثر سیاسی جماعتیں سیاسی خاندانوں کی نمائندہ ہیں ۔ ہر سیاسی جماعت کسی خاندان کو ظاہر کرتی ہے ۔ اکثر دینی جماعتیں مسالک کی نمائندہ ہیں اور ہر جماعت کسی نہ کسی مسلک کی محافظ ہے۔جماعت اسلامی نہ کسی سیاسی خانوادے کی نمائندہ اور محافظ ہے اور نہ ہی کسی خاص مسلک کی حامی یا مخالف ہے ۔ جماعت اسلامی نے اپنے یوم تاسیس کے بعد چھ سال متحدہ ہندوستان اور قیام پاکستان کے بعد 78 سال گزار چکی ہے ۔ اس عرصہ میں جماعت اسلامی پاکستان کی قومی تاریخ نے جو گہرے نقوش ثبت کیے ہیں ان کے چند نمایاں پہلو حسب ذیل ہیں :۔
آئینی و نظریاتی جدوجہد۔
قیام پاکستان کے بعد جاگیر دار ، وڈیرے ، سول و ملٹری بیوروکریسی اور سیکولر طبقہ کی پوری کوشش رہی کہ پاکستان سرزمین بے آئین ہی رہے یا پھر آئین بنے تو وہ پاکستان کو اسلامی کی بجائے سیکولر بنانے کی دستاویز ہو ۔ جماعت اسلامی پاکستان ، بالخصوص بانی ٔ جماعت اسلامی مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے پاکستان کے جید علمائے کرام علامہ سید سلیمان ندوی ، مولاناشبیر احمد عثمانی ، مفتی ابوالحسنات قادری ، مولانا دائودغزنوی ؒ ، علامہ جعفرحسین مجتہد ؒ اور دیگر علمائے کرام کے تعاون سے قرار داد مقاصد منظور کروائی ۔ 31 علمائے کرام کو 22نکات پر متحد کیا ۔ سیکولر طبقہ کے اس منفی پراپیگنڈہ کہ ’’ کس کا اسلام نافذ کریں ؟‘‘ کا عملی جواب دیا۔ مطالبہ دستور اسلامی کی مہم چلائی ۔ جب دستور ساز اسمبلی توڑ دی گئی تو ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں دستوری جنگ لڑی اور بالآخر کامیابی حاصل کی ۔ 1956 ء کے آئین کی تشکیل میںبھر پور حصہ لیا ۔ اس آئین کے اسلامی جمہوری ، وفاقی بنانے میں قابل قدر تجاویز دیں ۔ 1958 ء کے مارشل لاء کی وجہ سے آئین کی صف لپیٹی گئی تو مارشل لاء کے خاتمے ، شہری آزادیوں کی بحالی ، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مسلسل جدوجہد کی ۔ اسی جدوجہد کے دوران جماعت اسلامی کے اجتماع عام بیرون بھا ٹی گیٹ لاہور 1963 ء پر گولی چلائی گئی ایک رکن جماعت اللہ بخش شہید ہوئے ۔ 1964 ء میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی ۔ تمام اراکین شوریٰ نظر بند ہوئے پھر عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے جماعت بحال ہوئی ۔ 1973 ء کے آئین کی تشکیل اور اس کی اسلامی دفعات کی تدوین میں جماعت اسلامی کے ممبران اسمبلی پروفیسر غفور احمد ؒ ، محمود اعظم فاروقی ؒ ، ڈاکٹر نذیر احمدؒ شہید، صاحبزادہ صفی اللہ ؒ نے دیگر علمائے کرام حضرت مولانا مفتی محمود ؒ ،مولانا شاہ احمد نورانی وغیرہ کی رہنمائی میں قرار داد مقاصد کی شمولیت ، پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنے ، سرکاری مذہب اسلام قرار دینے ، اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کے قیام ، قرآن و سنت کے منافی قانون سازی کی آئینی ممانعت ، آرٹیکل 31 کے تحت اسلامی معاشرہ کے قیام کو حکومتی ذمہ داری قرار دینے ، صدر ، وزیراعظم و دیگر عہدے داران کے حلف وغیرہ کے سلسلہ میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں ۔ 1974 ء کی تحریک ختم نبوت کے نتیجہ میں قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے ۔
آئین پاکستان کے تحفظ کے لیے جماعت اسلامی اب تک سرگرم عمل ہے ۔ موجودہ سیاسی بحران میں بھی جماعت اسلامی کی پوری کوشش ہے کہ آئین پاکستان کو کسی صورت کوئی نقصان نہ پہنچے ۔
اتحاد امت :۔
جماعت اسلامی پاکستان کا دوسرا بڑا کارنامہ اتحاد امت کے لیے مساعی جمیلہ ہے۔ چونکہ جماعت اسلامی خود کسی خاص مسلک کی نمائندہ نہیں اس میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں اور جماعت اسلامی خود اتحاد امت کی علامت ہے پھر جماعت اسلامی نے ہمیشہ اتحاد امت اور بین المسلکی ہم آہنگی کی بھر پور کوشش کی ہے ۔ تحریک ختم نبوت ، تحریک نظام مصطفیٰ ؐ ، ملی یکجہتی کونسل ، متحدہ مجلس عمل وغیرہ کی صورت میں امت کو اکٹھا کرنے کا فریضہ سرانجام دیاہے ۔ تحریر کو طوالت سے بچانے کے لیے میں جماعت اسلامی کی کامیابیوں کی صرف فہرست شامل کر رہاہوں ۔ موروثی سیاست کی نفی اور جماعت اسلامی کے اپنے اندر جمہوریت ، خفیہ بیلٹ کے ذریعے امیر جماعت و شورٰی کا انتخاب ۔
جمہوریت کا تحفظ آمریت کا مقابلہ :۔
جماعت اسلامی نے ہمیشہ آمریتوں (ایوبی آمریت ، بھٹو شاہی ، یحییٰ خان ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آمریت )کی مذمت و مخالفت کی ہے اور جمہوریت اور جمہوری اقدامات کے تحفظ کی جنگ لڑی ہے ۔
خدمت خلق اور ریلیف ورک :۔
جماعت اسلامی کے تحت الخدمت فائونڈیشن ہر سال تین ارب روپے کے خدمت خلق کے پراجیکٹس چلارہی ہے ۔ ہسپتال ، ڈسپنسریاں ، ایمبولینس سروس ، بلڈ بنکس ، کفایت یتامیٰ کے لیے آغوش کے نام سے ہاسٹلز اور تعلیمی اداروں کا قیام ، زلزلہ زدگان ، سیلاب زدگان ، آئی ڈی پیز غیرہ اور اب کورونا وباکے خاتمہ کیلئے کروڑوں روپے کے ریلیف و بحالی پراجیکٹس وغیرہ ۔
ہر طبقہ زندگی میں اصلاح امت کا کام :۔
طلبہ میں اسلامی جمعیت طلبہ ، طالبات میں اسلامی جمعیت طالبات ، دینی مدارس میں جمعیت طلبہ عربیہ ، مزدور وں میں نیشنل لیبر فیڈریشن ، تحریک محنت ، کسانوں میں کسان بورڈ پاکستان ، اساتذہ میں تنظیم اساتذہ ، علما میں جمعیت اتحاد العلماء ، وکلا میں اسلامک لائرز موومنٹ ، ڈاکٹر ز میں پیما ، ہومیو ڈاکٹرز میں ایما ، انجینئر ز فورم ، نوجوانوں میں شباب ملی ، خواتین میں حلقہ خواتین ، تاجروں میں پاکستان بزنس فورم ، گویا کہ ہر طبقہ زندگی میں دعوتی کام ہورہاہے اور معاشرے کے ایک بڑے طبقہ کو اپنے معاشرے اور حکومت کی اصلاح کے لیے منظم کیا جارہاہے ۔ فہم قرآن کلاسز ، دروس قرآن کے حلقوں ، شب بیداریوں ، تربیت گاہوں ، دینی لٹریچر وغیرہ کے سلسلہ کے ذریعے دینی ماحول کی تعمیر و تشکیل کا کام جاری ہے ۔