سابق ممبر قومی اسمبلی نائب امیر
جماعت اسلامی میاں محمد اسلم
وزیر اعظم عمران خان کوتو سچ بولنے کی توفیق نہیں سچ یہ ہے کہ بائیس کروڑ پاکستانی عوام اور ڈیڑھ کروڑ کشمیری عوام اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اب وقت آگیاہے کہ یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہو گی وزیراعظم نے مودی کی جیت کی دعا کی تھی اور آج وہی مودی کشمیریوں پر ظلم و جبر اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کر رہاہے 35-A اور 370 کے نفاذ کے بعد مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی جاری ہے اور ہمارے حکمران چپ سادھے بیٹھے ہیں کیایہ سچ نہیں ہے کہ بھارت کشمیر ہڑپ کرچکا ہے اور خوف کے سائے کشمیر میں لہرا رہے ہیں پاکستانی قوم آج 74 واں یوم آزادی منا رہی ہے۔ ہر سال اسے جشن آزادی کہا جاتا ہے لیکن کیا آج پاکستانی قوم کے یوم آزادی کو جشن آزادی قرار دیا جاسکتا ہے کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے ایسے حالات میں حکمرانوں سے کشمیریوں کے لیے کلمہ خیر کی توقع نہیں ہے۔ اسے بدنصیبی ہی کہا جائے گا پاکستان میں بھیانک خاموشی ہے صرف بیانات داغ رہے ہیں اور کشمیری خوراک سے محروم ہو رہے ہیں اگر بیانات اور تقریروں سے کشمیر آزاد ہوسکتا تو بہت پہلے ہو جاتا۔ لیکن کشمیر جیسے چھینا گیا ہے اسی طرح آزاد ہوگا حکمران گاہے بگاہے کشمیر کشمیر کے بیانات داغ رہے ہیں ان کا ہر بیان کشمیریوں کے دلوں پر داغ بن رہا ہے۔ عوامی دباؤ کے نتیجے میں یوم آزادی پر کچھ نمائشی اقدامات کیے جاتے ہیں کشمیر پر سرکاری نعرہ دیا گیا ہے کشمیر کے لیے بیک وقت اقدامات کرنے ہوں گے۔کشمیر اگر ہماری شہ رگ ہے تو آج اسے دشمن کے مکمل قبضے میں دیکھ کر اطمینان کیوں ہے۔ اسے چھڑانے کے لیے بے چین کیوں نہیں ہیںاحتجاج، مطالبے اور مظاہرے کرنا حکمرانوں کا کام نہیںہوتا ہے۔ ہمت ہے تو اقدام کریں ورنہ استعفیٰ دے کر گھر جائیں پاکستان کو مجاہد قیادت کی ضرورت ہے اگر حکومت نے سنجیدہ اقدام نہیں کیا تو پھر گلی گلی میں اس کے خلاف آواز اٹھے گی جو کام حکمرانوں کا ہے انہیں ہی کرنا چاہیے کسی اور کو موقع نہیں دیا جائے۔