.14 اگست ۔ جمہوریت کی فتح اور آزادی کا دن

267

 

عامر ریاض
14اگست کا دن آزادی اور جمہوری عمل سے عبارت ہے ۔آزادی و جمہوریت لازم وملزوم ہیں کہ جن معاشروں میں نو آبادیاتی قبضوں سے نجات کے بعد جمہوریت کا قیام عمل میں لانے سے گریز برتا گیا وہاں عوام آزادی کے ثمرات سے یکسر محروم رہے ہیں۔
ماسوائے پاکستان اور ترکی تمام مسلم ممالک میں جمہوریت اور سیاسی عمل کے حوالے سے یہی صورتحال ہے کہ شخصی آمریتوں اور بادشاہتوں پر مشتمل غیر جمہوری بندوبست تاحال ان ممالک کے عوام کا مقدر ہے ۔ پاکستان میں 1977, 1969, 1958اور 1999 کے مارشل لا کے باوجود جمہوریت کے سبق کو بھلایا نہیں جاسکااور غیر آئینی حکمرانوں کے خلاف جمہوری جدوجہد کا زمانہ گواہ ہے ۔
اس کی سب سے بڑی اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ خود پاکستان کا خمیر ایک جمہوری و سیاسی عمل سے اٹھا تھا۔ نو آبادیاتی دور میں محدود حق رائے دہی، سیاست و صحافت پر پابندیوں اور منتخب اسمبلیوں و حکومتوں کے محدود اختیارات کے باوجود علامہ اقبال اور قائداعظم سیاسی جدوجہد اور قانون و آئین کی حکمرانی کے رستے پر گامزن رہے ۔ دونوںرہنماؤں نے محدود اختیارات والی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصّہ لیا اور پارلیمانی جدوجہد کو اولیت دی۔
آج کے دن اسی تجدید عہد کی ضرورت ہے کہ پاکستان کسی لشکر کشی یا افسر شاہی کے حکم سے نہیں بلکہ ایک سیاسی و جمہوری عمل کی وجہ سے وجود میں آیا تھا۔ 1937 کے انتخابات میں مسلم پارلیمانی بورڈوں کی سیاست کی وجہ سے مسلم لیگ کو مسلم اقلیتی صوبوں جیسے یوپی ، بہار وغیرہ میں تو کامیابیاں ملیں تھیں تاہم مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلم لیگ کی انتخابی کارکردگی بہت مایوس کن تھی۔
1937 میں مسلم اکثریتی صوبوں میں بنگال، سندھ، سرحد اور پنجاب شامل تھے کہ ان چاروں میں سے کسی ایک صوبہ میں نہ تو کانگرس اور نہ ہی مسلم لیگ اکثریتی جماعت بن کر ابھری تھی۔ یہ ان صوبوں میں مقامی پارٹیوںکی طاقت کا کھلااظہار تھا۔ سرحد اور بنگال میں جیتنے والے ممبران اسمبلی میں آزاد امیدواروں کا تناسب بہت زیادہ تھا جبکہ سندھ اور پنجاب میں یہ تناسب بہت معمولی تھا۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ سندھ اور پنجاب میں لوگ سیاسی جماعتوں کے ساتھ کام کرنے کو موزوں سمجھتے ہیں۔
مسلم اقلیتی صوبوں میں مسلم لیگ نے جمعیت علما ہند، خلافت کمیٹی اور دیگر مسلم مقامی جماعتوں کے اشتراک سے مسلم پارلیمانی بورڈ بنائے تھے اوراسی وجہ سے مسلم نشستوں پر مسلم لیگ اوراس کے حلیفوں کو واضح برتری حاصل ہوئی تھی۔ مگر یہ فتح بے معنی ثابت ہوئی کہ مسلم اقلیتی صوبوں میں مسلمانوں کی کل نشستیں 8تا11 فیصد تھیں جو ایوان میں کسی موثر کردار کے لیے ناکافی تھیں۔ ان انتخابی نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے قائداعظم نے مسلم لیگ کو مسلم اکثریتی صوبوں میں مقبول عام کرنے کی لائن اپنائی۔
اس بدلی ہوئی سیاسی پالیسی کا پہلا اظہار بنگال میں نظر آیا جب مسلم لیگ نے کرشک پرجا (مزدور،کسان) پارٹی سے اتحاد کیا اور اس پارٹی کے رہنما اے کے فضل الحق کو بنگال کا وزیر اعلیٰ بنانے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس پالیسی کا دوسرا اظہار پنجاب میں نظر آیا جب قائداعظم اور پنجاب کے وزیراعظم سکندر حیات کے درمیان جناح سکندر معاہدہ ہوا۔ یوں مسلم لیگ نے 1937 کے انتخابات کے بعد وہی پالیسی اپنائی جس کا تعین علامہ اقبال نے 1930کے خطبہ الٰہ آباد میں بر ملا کیا تھا۔
اقبال تو اپنا مدعا لے کر سب سے پہلے نہرو کمیٹی کے روبرو گئے تھے مگر ان اعلیٰ اذہان نے اقبال کا تمسخر اڑایا تھا جبکہ خود مسلم لیگ میں بھی ایسے حضرات خال خال ہی تھے جنھیں 1930کی دہائی کے پہلے نصف تک اقبال کی بات پلے پڑی تھی۔ البتہ 1937 کے انتخابی نتائج نے یہ ثابت کر دیا کہ جمہوریت میں عددی اکثریت کواولیت حاصل ہوتی ہے ۔ جس پالیسی کی بات اقبال نے تاریخی خطبہ میں کی تھی اس میں یہی تحریر تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مستقبل کی سیاست میں مسلم اکثریتی صوبے کلیدی کردار ادا کریں گے ۔
بدلتے ہوئے جمہوری پس منظر پر اقبال کی نظر خوب تھی۔ دلچسپ تضاد یہ تھا کہ 1938 میںنئی لائن اپنانے کے بعد مسلم لیگ پنجاب و بنگال میں سیکولر کرشک پرجا پارٹی اورسیکولر یونینسٹ پارٹی سے اتحاد کر چکی تھی کہ یہ دونوں پارٹیاں پنجاب و بنگال کی مقامی طاقت کی نمائندہ تھیں جبکہ کانگرس جن صوبوں میں جیتی تھی وہاں ایک طرف ہندی زبان و بندے ماترم کا پرچار کررہی تھی تو دوسری طرف مہاتما گاندھی، ابوالکلام آزاد، سردار پٹیل اور سیٹھ برلا ،رل مل کر نہ صرف انقلابی رہنما سبھاش چندر بوس کے خلاف سرگرم عمل تھے بلکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں اکثریتی جماعتوں کے خلاف گمراہ کن مسلم رابطہ مہمیں چلارہے تھے ۔
بقول سینئر مسلم لیگی رہنما 1940 کی قرارداد لاہور بناتے وقت رہنماؤں کے روبرو امریکاکا آئین تھا جو فیڈریشن کے اصولوں پر بنا ہوا تھا۔یہ تاریخی قراردادمسلم اکثریتی صوبوں کے حق میں آئی کہ اس کے بعد سات برسوں میں خود کانگرس پنجاب کے دو صدور نے اوپر تلے کانگرس سے استعفیٰ دیا اور مسلم صوبوں کے کلیدی کردار پر لبیک کہتے ہوئے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ ان دو رہنماؤںمیں میاں افتخارالدین تو وہ تھے جنھوں نے مارچ 1942 میں راج گوپال اچاریہ کی قیادت میں کانگرس کی ورکنگ کمیٹی میں قرارداد بھی جمع کروائی تھی۔
اس قرار داد کے مطابق کانگرس کو یہ وعدہ کرنا تھا کہ انگریز کو نکالنے کے بعد مسلم اکثریتی صوبوں کو حق علیحدگی دیا جائے گا۔ میاں صاحب اور راجہ جی اچاریہ کا یہ استدلال تھا کہ اس طرح مسلم لیگ اور کانگرس مل کر انگریز کو چیلنج کریں گے تو انگریزی تسلط کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ مگراقبال کی طرح میاں افتخار الدین کی بات کا بھی تمسخراڑایا گیا تھا۔دوسرے رہنما وصدر کانگرس پنجاب مولانا داؤد غزنوی تھے جو مجلس احرار کے بانیوں میں شامل تھے اور بعدازاں احرار چھوڑ کر کانگرس میں آ چکے تھے ۔
شومئی قسمت انھوں نے بھی کانگرس کو تج دیا ۔ یہی نہیں بلکہ پنجابی مسلمانوں کی بڑی تعداد جن میں ڈاکٹر عالم، ظفر علی خان، احراری لیڈران اور سیالکوٹ کے آغا صفدر وغیرہ شامل تھے نے بھی کانگرس کو چھوڑ کریا تو الگ راہ اپنائی تھی یا پھر وہ مسلم لیگ میں شامل ہو چکے تھے ۔ ان سب کو معاہدہ لکھنؤ پر شدید اعتراضات تھے جس کی وجہ سے پنجابی مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے کہیں کم نشستیں دی گئی تھیںجوا ن کے جمہوری حق پر ڈاکہ گردانا گیا تھا۔
خطبہ الٰہ آباد میں اقبال نے معاہدہ لکھنؤ کو اسی لیے Pitfall قرار دیا تھا۔ کانگرس متحدہ ہندوستان کی سطح پر تو جمہوریت کی حمایتی تھی مگر مسلم اکثریتی صوبوں میںجمہوریت کے بارے میں بوجوہ تحفظات رکھتی تھی۔یہی وہ تضاد تھا جس کی نشاندہی میاں افتخارالدین نے بروقت کر دی تھی اور برملا یہ بیان دیا تھاکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کے حقوق کا سوال عین جمہوری مسئلہ ہے ۔ یہ میاں صاحب ہی تھے جنھوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو بھی مسلم اکثریتی صوبوں کے حقوق کی حمایت پر مائل کیا تھا۔
1946 کے انتخابی نتائج اس لئے اہم ہیں کہ اس میں مسلم لیگ نے مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی میدان مارلیا تھا کہ پنجاب میں 175میں سے 73، بنگال میں 250میں سے 113 جبکہ سندھ میں 60سے 27نشستیں مسلم لیگ نے جیت لیں۔ صوبہ سرحد کا معاملہ قدرے مختلف تھا کہ یہاں بقول عائشہ جلال1941کی مردم شمادی کے مطابق صوبہ سرحد میں 92 فی صد مسلم آبادی رہتی تھی تاہم اس کی اسمبلی میں غیر مسلموں کی نشستیں آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ تھیں۔
1946ء میں صوبہ سرحد میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں جمعیت علماء ہند، خدائی خدمتگاروں اور کانگریس ہی کا مسلم لیگ کے خلاف اتحاد نہیں تھا بلکہ اکالی پارٹی کی واحد نشست اور ہندوؤں کی نشستوں پر جیتنے والوں نے بھی مسلم لیگ کی مخالفت میں کانگرس اور اس کے حواریوں کا ساتھ دیا تھا۔ اس سب کے باوجود مسلم لیگ نے صوبہ سرحد میں 50 میں سے 17 نشستیں حاصل کیں تھیں جو اس کی طاقت کا ثبوت تھا۔
1946ء کے انتخابات میں بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ کا ساتھ جمعیت علماء اسلام نے بھی دیا تھا جو جمعیت علماء ہند سے علیٰحدہ ہونے والوں نے بنائی تھی۔ علاوہ ازیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اپنے الگ امیدوار بھی دیئے اور ان کے بہت سے مسلم کمیونسٹ کارکنوں و ہمدردوں نے مسلم لیگ کی انتخابی مہم میں فکری و عملی سطح پر بھرپور حصہ لیا تھا۔ عبداللہ ملک، رؤف ملک، غلام محمد ہاشمی، مطلبی فرید آبادی، سی آر اسلم، سجاد ظہیر ہی نہیں بلکہ پورن چند جوشی، سوہن سنگھ جوش ،ادھیکاری، ایم ڈی تاثیر جیسے ترقی پسند بھی اس میں پیش پیش رہے ۔
اس زمانے کے ترقی پسند جریدوں کے اداریوں کا انتخاب ‘‘ہماری تحریک آزادی اور تخلیقی عمل’’ مرتبہ احمد سلیم چھپ چکا ہے جو ریکارڈ کا حصّہ ہے ۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ 1946ء کی انتخابی مہم میں تمام اہم سیاسی جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا تھا اور جو فیصلے 3 جون 1947ء کو کیے گئے ان کے پیچھے نو آبادیات ختم کرنے کاامریکی دباؤ اور سبھاش چندر بوس کی بروقت بغاوت کے علاوہ ایک بھرپور سیاسی و جمہوری عمل بھی تھا۔ تاہم 1946ء میں جب سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی مسلم لیگ کو پنجاب سرکار نہیں بنانے دی تو یہ ا ک غیر جمہوری طرز عمل تھا۔
محض 20 نشستیں جیتنے والے خضر حیات ٹوانہ کو کانگرس اور اکالیوں نے تخت لاہور پر بٹھا کر قابل قدر کام نہیں کیا۔ یہی نہیں بلکہ8 مارچ 1947ء کو خود کو سیکولر کہلانے کی دعویدار اور ہندوستان کی تقسیم کی مخالف آل انڈیا کانگرس کی ورکنگ کمیٹی نے دلی شہر میں بیٹھ کر ایک ایسی قرارداد منظور کی جو جمہوری و سیاسی عمل سے یکسر انحراف پر مبنی تھی۔ اس قرارداد کا متن تقسیم ہند کی دستاویزات پر مشتمل مشہور کتاب ٹرانسفر آف پاور کی جلد9 کے صفحہ 901 پر محفوظ ہے ۔
یاد رہے کہ ابھی 3 جون کے منصوبہ کا اعلان نہیں ہوا تھا کہ8مارچ کو کانگرس نے پنجاب کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ 2013 میں جب راج گوپال اچاریہ کے پوتے راج موہن گاندھی نے پنجاب کے بارے میں کتاب لکھی تو انھوں نے خود کانگرس سے یہی سوال کیا کہ جب آپ نے خود مارچ 1947 میں پنجاب کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کا مطالبہ کر دیا تھا تو آپ نے خود عملاً 3 جون منصوبہ سے قبل ہی پاکستان بنا دیا تھا۔
‘‘پنجاب: اورنگ زیب سے ماؤنٹ بیٹن تک’’ کے صفحہ 340/341 ان سوالات سے بھرے پڑے ہیں جو راج موہن گاندھی نے اٹھائے ہیں۔یاد رہے مذہبی بنیادوں پر پنجاب و بنگال کی تقسیم کا مطالبہ مسلم لیگ نے کبھی نہیں کیا۔ 11؍اگست 1947 کی قائداعظم کی تقریر گواہ ہے کہ وہ پنجاب و بنگال کی تقسیم پر افسردہ تھے ۔ وقت نے ثابت کیا کہ اس مذہبی تقسیم نے مذہبی منافرت اور انتہا پسندی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔اگر ماؤنٹ بیٹن، برٹش اسمبلی اور کانگرس اس تقسیم پر اصرار نہ کرتے تو نہ صرف پاکستان میں اقلیتوں کی معقول تعداد ہوتی بلکہ جمہوری روایات کا بھی بول بالا ہوتا۔
آج 14 اگست کے دن یہ تحریر اس لیے بھی لکھی جا رہی ہے کہ آپ جمہوری و سیاسی عمل کی تکریم کو بھی یاد رکھیں اور ان جماعتوں اور قوتوںکو بھی پہچانیں جو جمہوریت کی آڑ میں جمہوری و سیاسی عمل سے روگردانی کرتی ہیں۔
آزادی جمہوریت کے بغیر اندھی اور جمہوریت آزادی کے بغیر لنگڑی ہوتی ہے ۔ ایوب، ضیاء اور مشرف نے جو جمہوریت رچائی تھی وہ آزادی کے بغیر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مارشل لا کے بعد عوام نے انہیں بار بار مسترد کیا۔ محبوس یا حبس زدہ جمہوریت آزادی کی نفی ہوتی ہے کہ جس ملک کا خمیر آزادی و جمہوریت سے اٹھا ہو وہاں مارشل لا زہر قاتل کا کردار ادا کرتے ہیں، ہماری 60 سالہ تاریخ اس کی زندہ مثال ہے ۔ جمہوریت کے نقائص کا علاج جمہوری تسلسل اور شراکتی جمہوریت میں ہے ۔ آئین و قانون کی حکمرانی پر پہرہ دیتے ہوئے ہی ہم آزادی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچا سکتے ہیں۔ 14 اگست کا دن جمہوری و سیاسی عمل اور آزادی کی تکریم کی تجدید کا دن ہے کہ ہمیں ہر دم اسی کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ۔