قیام پاکستان اور نشریاتی معجزہ!

615

محمودؔ ریاض الدین
سابق کنٹرولر نیوز ریڈیوپاکستان
mahmoodriazuddin@gmail.com
جس طرح بقول قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان تو اسی دن معرض وجود میں آ گیاتھا جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا ، اسی طرح ریڈیو پاکستان بھی اسی دن یعنی 3؍جون 1947ء کو معرض وجود میں آگیاتھا جب خود قائد اعظم نے آل انڈیا ریڈیو سے قوم کے سامنے قیام پاکستان کا کیس پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر کے آخر میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے الفاظ کہے تھے۔ یہ ان کا یقین محکم ہی تھا کہ ان کے اس تاریخی خطاب کے محض دو ماہ بعدپاکستان منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا اور اس کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان نئی مملکت کا پہلا نشریاتی ادارہ بن کرنمودار ہوا۔
اگر قیام پاکستان ایک معجزہ تھا تو پھرعین آزادی کی صبح ریڈیوپاکستان کے شعبہ خبرکا قیام اور پاکستان کے دونوں بازوئوں یعنی مشرقی پاکستان و مغربی پاکستان سے ریڈیوپاکستان کے پہلے خبرنامے کا نشرہوجانا بھی ایک معجزے سے کم نہ تھا۔آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ معجزہ کیسے رونما ہوا۔
اپنے معرض وجو دمیں آنے پر پاکستان کو بے شمار چیلنجوں اور گوناگوں مسائل کا سامنا تھا۔ انتہائی بے سروسامانی کا عالم تھا، ادارے عنقاتھے اور انتظامی امور چلانے کیلئے دفاتر و سٹیشنری جیسی سہولتیں تودرکنار خود انتظامی ڈھانچہ ہی ناپید تھا۔نوزائیدہ مملکت کیلئے اثاثوں کی تقسیم میں حد درجہ بے انصافی نے شدید مالی و معاشی دشواریوں کو جنم دیا تھا، تاریخ عالم کی سب سے بڑی ہجرت کے نتیجے میں خاندانوں کی تقسیم کے بعد جدائی کے زخم ابھی تازہ تھے۔ اوپر سے لٹے پٹے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ برابر جاری تھا جن کی آباد کاری کیلئے ریاست کوشاں تھی۔سب سے بڑا چیلنج خود پاکستان کا اپنا استحکام اور ایک نئی قوم یعنی پاکستانی قوم کا ارتقاتھا۔ ان نامساعد حالات میں ریڈیوپاکستان امید کی کرن بن کر سامنے آیا ۔
خود ریڈیو پاکستان کا اپنا حال یہ تھا کہ نئی مملکت کے حصے میں صرف تین ٹرانسمیٹریعنی لاہور، ڈھاکہ اور پشاورآئے۔سارے کا سارا عملہ بھارت منتقل ہوگیا تھا۔ گنتی کے صرف چند مسلمان رہ گئے تھے۔آل انڈیا ریڈیو جیسے مستحکم نشریاتی ادارے کے گمراہ کن اور معاندانہ پروپیگنڈے کا توڑ کرنے اور دوسرے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ریڈیوپاکستان کوخوداپنی تعمیر بھی درکارتھی۔ چنانچہ ان حالات میں ریڈیو پاکستان کے گنتی کے عملے نے ایثاروعزم اور محنت و لگن کی قابل رشک مثالیںقایم کیں اور دوسرے پروگراموں کے ساتھ ساتھ شعبہ خبر پر بھی برابر توجہ دی جس کی وجہ سے14اگست 1947ء کی صبح ریڈیوپاکستان سے پہلے خبرنامے کا نشر ہونا ممکن ہوسکا۔
غنی اعرابی جو پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں کئی سال تک ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر آف نیوز رہے، اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ وہ 10؍اگست 1947ء کو دہلی سے روانہ ہوئے اور تین دن کے جاں گسل سفر کے بعد جس کے دوران ان کی ٹرین مسلسل فسادیوں کے نرغے میں رہی، 13؍اگست کی رات اس حالت میں لاہور پہنچے کہ تمام شہر فسادات کی لپیٹ میں تھا، وہ ایک پولیس کار میں جس میں پنجاب بائونڈری فورس کے تین مسلح اہلکار چوکس بیٹھے ان کی حفاظت پر مامورتھے، ریڈیوسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے اور تمام رکاوٹوں اور فسادیوں سے بچتے بچاتے ریڈیوسٹیشن پہنچے۔ دہلی میں آل انڈیا ریڈیو کے وسیع و عریض براڈکاسٹنگ ہائوس کے مقابلے میں لاہور کا ریڈیو سٹیشن ایک چھوٹی سی پرانی رہائشی عمارت میں قایم تھا جہاں سابقہ آل انڈیاریڈیو کا صرف پروگرام سٹاف ہی مشکل سے سما سکتا تھا جبکہ یہاں پروگرام سٹاف کے ساتھ ساتھ نیوز ایڈیٹروں، ٹرانسلیٹروں، نیوزریڈروں، مانیٹروں اور سٹینوگرافروں کی اضافی تعداد کو بھی کھپاناتھا۔
شعبہ خبر کو جو انیکسی ملی وہ نیوز آپریشنز کیلئے قطعاً ناکافی تھی، یہاں خبروں کے وہ نازک بلیٹن تیار کرنا تھے جن کی تیاری سے لے کر نشر ہونے تک ایک ایک سیکنڈ کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اس وقت مسئلہ بیٹھنے کیلئے کرسی یا میز کا نہ تھا بلکہ بڑا مسئلہ پیشہ ورانہ سہولتوں کا تھا تاکہ متعدد زبانوں میں خبرنامے تواتر کے ساتھ نشر کیے جاسکیں۔
قیام پاکستان کا یہ ابتدائی زمانہ آج کی طرح ترقی یافتہ نہ تھا کہ سینکڑوں عالمی ، علاقائی اور مقامی نیوز ایجنسیوں سے خبری مواد دستیاب ہوجاتا، سرکاری ادارے اتنے ترقی یافتہ نہیں تھے کہ اپنی سرگرمیوں سے متعلق نیوزلیٹرز یا پریس ریلیز جاری کرتے۔ بلکہ خوداداروں کا وجود ہی نہ ہونے کے برابر تھا کہ تقریباً سارا سٹاف پاکستان کی حدود میں آنے والے علاقے چھوڑ کر جو کچھ ہاتھ میں آیا، لے کر بھارت جاچکاتھا۔ انٹرنیٹ اور فیکس وغیرہ تو تصور تک نہیں تھا، رپورٹر اور نامہ نگار ابھی بھرتی نہیں کیے گئے تھے، دوسرے شہروں میں ریڈیو کے علاقائی نیوز یونٹ ابھی قایم نہیں ہوئے تھے۔ لے دے کرخبروں کے خام مواد یعنی raw material کا صرف ایک ذریعہ باقی رہ جاتا تھا یعنی نیوزایجنسی کا ٹیلی پرنٹر۔ چنانچہ کچھ مانیٹرز کو غیر ملکی ا سٹیشنوں سے زیادہ سے زیادہ خبریں مانیٹر کرنے پر مامو ر کیا گیا۔ اس کے بعد سب سے اہم مسئلہ خبرنامے کو پیش کرنا تھا۔
لاہوراسٹیشن پرصرف پانچ کلوواٹ کا فرسودہ مارکونی ٹرانسمیٹر نصب تھا جس کی نشریات کو نئے دارالحکومت کراچی میں سنا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا کہ خبرنامے کو ٹیلی فون لائنوں کے ذریعے کراچی منتقل کیاجائے جومحکمہ ٹیلی فون اور ٹیلی گراف نے ہنگامی بنیادوں پر نصب کر دی تھیں دوسرا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ کراچی میں سرے سے کوئی ٹرانسمیٹر ہی موجود نہیں تھا چنانچہ ایک انتہائی کم پاور کے موبائل ٹرانسمیٹرکا بندوبست کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تقسیم سے پہلے کراچی میں حکومت سندھ نے ریڈیو کا ٹرانسمیٹر لگانے کیلئے کوئی قطعہ زمین الاٹ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے ٹرانسمیٹر گزشتہ ایک سال سے بیکار پڑا تھا۔ اسے فرائض سے غفلت کہہ لیجیے یا مجرمانہ تساہل کہ تقسیم برصغیر کے وقت ایک ہندوانجینئر یہاں نصب کیے جانے والے ٹرانسمیٹرکو اپنے ساتھ لے کر بھارت چلتا بنا۔
اس موقع پر خدائے جل شانہ کی طرف سے ایک معجزہ رونما ہوا کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ بھی ریڈیائی رابطہ قایم ہوگیا۔ مارکونی ٹرانسمیٹر بنانے والوں کا دعوی ٰتھا کہ پانچ کلوواٹ ٹرانسمیٹر کی نشریات دن کے وقت پچاس میل کے علاقے میں اور رات کو سو میل کے علاقے میں واضح طور پر سنائی دیتی ہیں لیکن خدا کی قدرت کہ لاہور کے پانچ کلوواٹ ٹرانسمیٹر کی آواز ایک ہزار میل سے بھی زیادہ دور ڈھاکہ میں انتہائی صاف اور بلندسنائی دی۔ ڈھاکہ ریڈیواسٹیشن نے لاہور سے نشر ہونے والی خبروں کومانیٹر کیا اور اس کی اہم خبروں کو اپنے علاقائی خبرنامے میں شامل کرکے اسے ایک طرح کا قومی پروگرام (National Hook-up)بنادیا۔ اس معجزے کے بغیرمشرقی پاکستان کے عوام کوریڈیوپاکستان کی تاریخی نوعیت کی ان خبروں سے محروم رہنا پڑتا۔
ایک دوسرا معجزہ لاہورسٹیشن میںنیوزروم کی ناکافی سہولتوں کے باوجود ایک جامع اور مربوط خبرنامے کو پیش کرنا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد پہلے دن فسادزدہ شہر میں تمام رکاوٹوں کے باوجودسینیئر ارکان وقت پر سٹیشن پہنچے جس سے تمام سٹاف کو حوصلہ ملا۔ غنی اعرابی لکھتے ہیں کہ اس وقت کے ڈائریکٹر آف نیوز محمدسرفراز کی وجہ سے جن کے پاکستان کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے اور وہ چند دن پہلے دہلی سے لاہور آگئے تھے، ریڈیوپاکستان کے مرکزی شعبہ خبریعنی سنٹرل نیوز آرگنائزیشن کا سرعت سے قیام ممکن ہوا۔غنی اعرابی کے مطابق انہیں حامد جلال اور کے ایس ایچ انصاری جو ریڈیوپاکستان کے بہترین نیوزایڈیٹر ثابت ہوئے، کی موجودگی سے بڑا حوصلہ ملا اور حامد سے قریبی تعاون کی وجہ سے بہت جلد تمام خبری مواد کو ترتیب دینے اور پھرخبروں کی اہمیت کے اعتبار سے خبرناموں کی تشکیل کا باقاعدہ نظام قایم ہوگیا۔
آخر میں یہ عرض کر نا بھی ضروری ہے کہ ریڈیو پاکستان کے پہلے خبرنامے کی تیاری کے بعد اس نکتے پر اختلاف رائے تھا کہ شہ سرخیاں رکھی جائیں یا انہیں ترک کر دیاجائے۔ اس موقع پر غنی اعرابی کے اس استدلال سے اتفاق کیاگیا کہ دنیاکی کوئی بھی خبردنیا کے نقشے پر نمودارہونے والی نئی مملکت کی سب سے بڑی خبر سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اس نئی ریاست کے قومی نشریاتی ادارے جسے ان دنوں پاکستان براڈکاسٹنگ سروس کا نام دیاگیا، کے پہلے خبرنامے کا ابتدائیہ یہ تھا:
’’ آٹھ گھنٹے پہلے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان منصہ شہود پر جلوہ گر ہوگئی’’
چنانچہ اوپر بیان کیے گئے حالات میںآزادی کی پہلی صبح آٹھ بجے نئی ریاست کے پہلے خبرنامے کا نشر ہوجانا اور پھر ایک ہزار میل سے زیادہ دور ڈھاکہ میں سناجانا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔
عام طور پر قائداعظم سے ایک بیان منسوب کیا جاتا ہے کہ قیام پاکستان میں ان کاٹائپ رائٹربہت ممدومعاون رہا۔ چنانچہ ریڈیو پاکستان کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ14اگست 1947ء کو اس نے اپنے سفر کی ابتداایک ٹائپ رائٹر ہی سے کی اور 1997ء میں کمپیوٹرایٔزیشن تک اسی ٹائپ رائٹر ہی کی بدولت یہ پاکستان کا سب سے بڑا نیوزنیٹ ورک بن چکاتھا۔ذرایٔع ابلاغ کے آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی جب پاکستان کے کونے کونے میں بیشمار ایف ایم ریڈیو کھل چکے ہیں،ہنوز ریڈیوپاکستان ہی واحد ادارہ ہے جو ہر ایک گھنٹے بعد انگریزی اور اردو خبرناموں کے علاوہ ہندی، بنگالی، سنہالی، کشمیری،عربی، ایرانی، چینی، فرانسیسی جیسی عالمی زبانوں نیز پنجابی ، پشتو، سندھی، بلوچی، براہوی، بلتی ،شینا، گوجری اور پہاڑی سمیت پاکستان کی کئی علاقائی زبانوں میں خبرنامے پیش کرتاہے۔ان کے علاوہ مرکزی شعبہ خبر سے ضلعی خبریں،کھیلوں کی خبریں، کاروباری خبریں اور موسم سے متعلق خبرنامے نشر کیے جاتے ہیں۔ نیز ریڈیوپاکستان کے ہر سٹیشن سے اردو کے علاوہ وہاں کی علاقائی زبان میں مقامی خبریں بھی نشر کی جاتی ہیں۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ دن میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب قیام پاکستان کے وقت ایک ٹائپ رائٹر سے سفر شروع کرنے والے ریڈیوپاکستان سے کوئی نہ کوئی خبرنامہ نشر نہ ہو رہاہو۔
(زیرطبع کتاب ’’آہوان شب ‘‘ سے اقتباسات)