آزادی ہے کہاں۔ جشن کیسا؟

522

پاکستانی قوم آج اپنا 74 واں یوم آزادی منارہی ہے۔ ایک زمانے میں پوری قوم بھرپور طریقے سے جشن مناتی تھی لیکن اب کس طرح جشن منایا جائے گا۔ شاید کچھ لوگ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر آجائیں۔ رات کو کروڑوں روپے کا بارود ہوا میں پھونک دیا جائے۔ کشمیری منتظر رہیں کہ یہ بارود ان کی آزادی کے لیے استعمال ہوگا۔ اور بس پھر 15 اگست آجائے گی۔ لیکن جشن منانے والوں سے بھی سوال ہے اور یوم آزادی پر بڑے بڑے پیغامات دینے والوں سے بھی سوالات ہیں۔ عوام سے تو یہی سوال ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد یاد ہے؟ کب تک اِدھر اُدھر کی خاک چھانتے رہو گے۔ کبھی جمہوریت، کبھی آمریت، کبھی اسلامی سوشلزم کبھی روشن خیالی، کبھی مارشل لا اور کبھی مدینے جیسی ریاست سب آزمالیا اب سب مل کر اسلامی نظام کی طرف توجہ دیں۔ ہمارے حکمران کیا کررہے ہیں۔ 73 برس سے کیا ہورہا ہے۔ اس ملک کا مقدر سازشیں ہی سازشیں ہیں۔ 24 ویں برس ملک دولخت ہوا۔ 30 ویں برس طویل مارشل لا لگا کر منتخب حکومتوں کو لپیٹ دیا گیا۔ اس مارشل لا میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تاردپود بکھیر دیے گئے۔ اسلامی کے لفظ پر سرکار کی سرپرستی میں خوب ابہام پھیلایا گیا۔ جمہوریہ تو رہنے نہیں دیا اور اس کے بغیر پاکستان کیا رہتا۔ پاکستان کا مطلب حکمران بن گیا۔ پھر ایک نام نہاد انجینئرڈ حکومتوں کا دور چلا۔ اور اس کو لوٹنے، کھانے اور لٹانے کے طریقے سکھائے گئے۔ اس دور کے سیکھے ہوئے آج کی حکومتوں میں ہیں اور اپنے تجربے کے مطابق ملک کا صفایا کررہے ہیں۔ کہا جاتا ہے بلکہ قوم کے ذہنوں میں ٹھونسا جاتا ہے کہ پاکستان سیکولرازم کے لیے بنایا گیا تھا۔ قائد اعظم سیکولر تھے۔ بلکہ وہ مسلمان ہی نہیں تھے بیک وقت کئی چیزیں ترقی پسندوں اور روشن خیالوں نے قوم کے ذہنوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی۔ اگر ان احمقوں کی بات مان لیں کہ قائد اعظم سیکولر تھے اور پاکستان میں سیکولرازم نافذ کرنا چاہتے تھے تو قائد اعظم پر اس سے بڑا سنگین الزام کوئی نہیں ہوگا۔ وہ سو سے زیادہ مواقع پر پاکستان میں اسلامی نظام قرآن و سنت کا نظام لانے کی بات کرچکے تھے۔ تقسیم کے وقت ہندوستان سیکولر ہی تھا قائد اعظم پر یہ الزام لگانے کا مطلب ان کو کم علم یا دھوکے باز کہنے کے مترادف ہے۔ ایک سیکولر ملک کی موجودگی میں قائد اعظم ایک سیکولر ملک کیوں حاصل کرنا چاہتے تھے۔ کیا ہندو سیکولر اور مسلمان سیکولر ملک بنانا چاہتے تھے۔ قائد اعظم پر یہ گھٹیا اور احمقانہ الزام ہے۔ ان ترقی پسندوں سے قطع نظر حکمرانوں نے کیا کیا۔ قائد اعظم نے مشرقی اور مغربی پاکستان دیے، حکمرانوں نے گنوادیا۔ قائد نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا، ہم نے اس سے دستبرداری کرتے کرتے موجودہ حکومت کے دور میں اس کا مکمل سودا کرلیا۔ لیکن بدلے میں کیا لیا کوئی بتائے کہ حکمرانوں کو کیا ملا۔ پاکستانی قوم سے پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الااللہ کا نعرہ چھین لیا۔ کشمیر بنے گا پاکستان کو خواب بنادیا۔ معاشی ترقی ایک دھوکا بن کر رہ گئی۔ ہر حکمران نے یہی وعدے یہی دعوے کیے اور ملک کو صرف لوٹا گیا۔ کوئی پیپلز پارٹی کا احتساب تو کرے وفاق میں چار مرتبہ حکمرانی کے باوجود سندھ کا حال یہ ہے کہ اب بھی پینے کا صاف پانی نہیں۔ اسپتال نہیں، اسکول نہیں، اسکول ہیں تو استاد نہیں۔ بنیادی صحت کے مراکز نہیں، لاڑکانہ کو لندن پیرس بنانے والے کراچی کو موہنجودڑو بنا گئے۔ لیکن توقع یہی ہے کہ 14 گست کو نوجوان سڑکوں پر ناچ رہے ہوں گے۔ کیوں کہ اس قوم سے کشمیر، معیشت، قومی سوچ کے ساتھ ساتھ نظریہ بھی چھین لیا گیا ہے۔ جس قوم کے نوجوانوں کو نظریہ ہی معلوم نہ ہو تو وہ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر ہی گھومیں گے۔ اب 73 برس بعد حال یہ ہے کہ ملک کا چیف جسٹس ملک کے سب سے بڑے شہر میں بجلی کی فراہمی اور نالوں کی صفائی پر عدالت لگائے بیٹھا ہے۔ اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے پاس کوئی مقدمہ ہی نہیں۔ عدلیہ صرف شفاف انتخابات کو یقینی بنادے۔ نالے، سڑکیں، بجلی، پارک، قبضے اور ترقیاتی کاموں کی طرف سے اسے کوئی فکر نہیں رہے گی وہ اپنے ہزاروں مقدمات نمٹا سکے گی۔ لیکن اس قوم سے کہا جارہا ہے جشن منائو، سڑکوں پر پانی ہے، گھروں میں نہیں ہے۔ کھمبوں میں بجلی ہے گھروں میں نہیں ہے، اے پاکستان کے شہریو… آزادی کے متوالو جشن منائو کہ نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔ سرکاری ملازمین کے بارے میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ دنیا میں آپ کے پاس سب سے قیمتی چیز آپ کا ضمیر ہے۔ اور آج اگر کوئی سرکاری افسر ایماندار نکل آئے تو بتانا پڑتا ہے کہ یہ ایماندار افسر ہے یا اسے ملازمت سے نکال کر بتایا جاتا ہے کہ ایمانداری کا انجام یہ ہوتا ہے۔ ان بے ایمان اور رشوت خور سرکاری افسران کا کام صرف عوام کو لوٹنا ہے۔ سرکاری افسران نے اپنی سب سے قیمتی چیز ضمیر کا سودا کرلیا۔ اب وہ مالا مال ہیں۔ کون سا محکمہ بچا ہے جہاں عام آدمی کو اس کا حق ملے۔ یہ سرکار اور سرکاری افسر آج جشن آزادی کے فیتے کاٹ رہے ہوں گے۔ اس قوم کو بجلی سے محروم کردیا گیا یہ اکیس ویں صدی ہے اس قوم کو صحت و صفائی کی سہولتوں سے محروم کردیا گیا۔ لوگ گھروں سے باہر قدم رکھیں تو کیچڑ، گڑھا یا کھلا مین ہول ہے۔ بارش ہوجائے تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، ان حالات میں کہا جاتا ہے جشن منائو… کس بات کا جشن منایا جاتا ہے۔ کشمیر چھن جانے کا، قوم کی مظلوم بہن عافیہ صدیقی کو دشمن کی قید میں 17 برس گزر جانے کا جشن، اصولوں پر کاربند، سچ بولنے والے، عزم و ہمت کے پیکر قائد اعظم کو اس ملک میں اجنبی بنانے کا جشن… غریب اور امیر کے لیے الگ الگ قانون کا جشن۔ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک میں اسلام کو اجنبی بنانے کا جشن…قائداعظم نے تو وطن دے دیا اب یہ بحث بے کار ہے کہ وہ کیا تھے۔ وہ سیکولرزم چاہتے تھے یا ان کے ساتھی کیسے تھے۔ ان کی کون سی تقریر کا کیا مطلب تھا۔ جن لوگوں کو دعویٰ ہے کہ وہ ملک کے ہمدرد ہیں اس ملک کے وہی والی وارث ہیں تو پھر وہ سب بھلا کر یہ فیصلہ کریں کہ اب کیا کرنا ہے۔ ملک کو فلاحی مملکت کیسے بنانا ہے۔ عوام کو حقوق کیسے دینے ہیں۔ کشمیر کیسے لینا ہے۔ عافیہ کو کیسے لانا ہے۔ بھارت کو کیسے سبق سکھانا ہے۔ آزادی کا مطلب اپنا پرچم اور اپنا جغرافیہ ہی نہیں ہوتا۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی غلامی سے آزادی بھی ضروری ہے۔ امریکا، مغرب، بھارت، چین اور ہر بڑی طاقت کی غلامی سے آزادی بھی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن یہ آزادی ملے گی کیسے؟؟ اس کا راستہ صرف ایک ہے۔ پوری قوم اجتماعی توبہ کرے اپنے آپ کو اللہ اور صرف اللہ کی بندگی میں دے دے پھر ساری غلامیاں ختم ہوجائیں گی۔ یہی اس سال یوم آزادی کا پیغام ہے۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات