کشمیر اور پاکستان کے شیخ چلی حکمران

1344

شیخ چلی اپنے خیالی پلائو کی وجہ سے ’’بدنام‘‘ ہے۔ شیخ چلی کا خیالی پلائو اس طرح پکتا تھا۔ مرغی کے انڈے، مرغی کے انڈوں سے مرغیاں، مرغیوں سے بکریاں اور بکریوں سے گائیں۔ پاکستان کے حکمرانوں میں بھی شیخ چلیوں کی کمی نہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا مگر جنرل ایوب اسے سیکولر بنانا چاہتے تھے۔ یہ شیخ چلی کا خواب تھا۔ جنرل ایوب پاکستان کو سیکولر بناتے تو اُن کے خلاف عوامی بغاوت ہوجاتی۔ ذوالفقار علی بھٹو ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نعرہ لگاتے تھے لیکن سوشلزم ان کے نعرے سے نکل کر عمل میں ڈھل جاتا تو ذوالفقار علی بھٹو کی ساری زمین چھن جاتی اس لیے کہ سوشلزم میں ساری ملکیت ریاست کی ہوتی ہے۔ جنرل ضیا الحق اسلام کا نعرہ لگاتے تھے لیکن اگر پاکستان میں اسلام آجاتا تو جنرل ضیا الحق کی آمریت ختم ہوجاتی اس لیے کہ اسلام میں کسی فوجی آمریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران کشمیر کے سلسلے میں شیخ چلی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ 1962ء کا زمانہ جنرل ایوب کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں چین اور بھارت کی جنگ ہوئی۔ بھارت مجبوری کے تحت اپنی ساری فوج چینی سرحد پر لے گیا۔ چین نے جنرل ایوب کو پیغام دیا کہ آپ آگے بڑھیں اور بھارت سے اپنا کشمیر چھین لیں۔ مگر امریکا کو چین کے مشورے کا علم ہوگیا چناں چہ اس نے جنرل ایوب سے کہا کہ آپ بھارت سے کشمیر لینے کی حماقت نہ کریں۔ چین بھارت جنگ ختم ہونے دیں ہم مسئلہ کشمیر کو سیاسی اور سفارتی ذرائع سے حل کرادیں گے۔ یہ شیخ چلی کا پلائو تھا مگر جنرل ایوب نے دل لگا کر پکایا نتیجہ یہ کہ کشمیر آج بھی بھارت کے قبضے میں ہے۔ سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے بعد پاکستان امریکا کی ’’ڈارلنگ‘‘ بن کر اُبھرا۔ جنرل ضیا الحق چاہتے تو امریکا سے کہتے ہم آپ کی جنگ لڑ رہے ہیں آپ ہمارا مسئلہ کشمیر حل کرائیں۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ البتہ امریکا کے دبائو پر بھارت پاکستان کے ساتھ خارجہ سیکرٹریوں کی سطح کے مذاکرات پر آمادہ ہوگیا۔ ان مذاکرات کے نو ادوار ہوئے مگر ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ پاکستان کے شیخ چلی ان مذاکرات میں خیالی پلائو پکانے میں مصروف رہے۔ نائن الیون کے بعد ایک بار پھر امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی۔ جنرل پرویز نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے امریکا کی باتیں مان کر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور کشمیر کو بچالیا ہے۔ مگر یہ باتیں بھی خیالی پلائو ثابت ہوئیں۔ جنرل پرویز اور واجپائی کے درمیان کشمیر پر آگرہ میں مذاکرات ہوئے۔ جنرل پرویز نے کشمیر کے ایک دو نہیں کئی حل پیش فرمائے۔ یہ حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق نہ تھے مگر بھارت نے کسی بھی حل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل پرویز آگرہ میں کئی روز تک خیالی پلائو پکا کر ملک واپس لوٹ آئے۔ یہ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے والی بات نہیں تھی۔ یہ لوٹ کے شیخ چلی گھر کو آئے والا عمل تھا۔
بدقسمتی سے عمران خان اور ان کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ نے اس بار کشمیر کے حوالے سے خیالی پلائو کی پوری دیگ پکادی ہے۔ عمران خان نے پاکستان کے نقشے میں تبدیلی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو پاکستان میں شامل کرلیا ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
مسلمانوں کی پوری تاریخ ’’عمل کی تاریخ‘‘ ہے۔ سیدنا عمرؓ نے وقت کی دو سپر پاورز کو شکست دی تو یہ شکست ’’خیالی‘‘ نہیں تھی عملی تھی۔ یہ شکست ’’Virtual‘‘ نہیں ’’Actual‘‘ تھی۔ اس کے نتیجے میں سلطنت روما اور سلطنت فارس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوگئیں۔ محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تو اس نے یہ فتح ’’نقشے‘‘ میں نہیں برسر زمین حاصل کی۔ بابر نے دلّی فتح کی تو یہ فتح بھی ’’Virtual‘‘ نہیں ’’Actual‘‘ تھی۔ قائد اعظم نے پاکستان بنایا تو نقشے میں پاکستان نہیں بنایا عمل کی دنیا میں پاکستان بنایا۔ مگر عمران خان صرف نقشے میں مقبوضہ کشمیر کو شامل کرکے اس طرح خوش ہورہے ہیں جیسے انہوں نے واقعتاً سری نگر فتح کرلیا ہو۔ کتنی عجیب بات ہے کہ 5 اگست کا دن قریب آتا ہے تو آئی ایس پی آر ایک نغمہ جاری کردیتا ہے۔ کیا آئی ایس پی آر شاعروں، گلوکاروں اور موسیقاروں کی کوئی انجمن ہے۔ آئی ایس پی آر کا کام جہاد کرنا ہے، مگر آئی ایس پی آر بھارت کے خلاف جہاد کرنے کے بجائے شاعری، موسیقی اور گلوکاری کے میدان میں گھوڑے دوڑا رہا ہے۔ مثل مشہور ہے جس کا کام اسی کو ساجے، اور کرے تو مورکھ باجے۔ لیکن یہاں بات ہورہی تھی عمران خان اور پاکستان کے نئے نقشے کی۔ اس سلسلے میں روزنامہ جسارت نے اپنے اداریے میں ایک اہم بات کہی ہے۔ جسارت کے اداریے کے مطابق چوں کہ اب مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ بن چکا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں 10 لاکھ قابض بھارتی فوجی موجود ہیں۔ چناں چہ پاکستان پر لازم ہوگیا ہے کہ اب وہ بھارت کے خلاف کچھ کرے۔ پاکستان کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ اگر بھارت نے آزاد کشمیر میں مداخلت کی تو بھارت کو سخت عسکری جواب دیا جائے گا لیکن جب سے مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنا ہے پاکستان میں بھارت کی مداخلت ایک حقیقت بن کر اُبھری ہے۔ چناں چہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ پر لازم ہے کہ وہ اب پاکستان کے ایک مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لیے بھارت کے خلاف جہاد کا اعلان کرے۔
تاریخ سے ثابت ہے کہ جتنی برکت جہاد میں ہے کسی چیز میں نہیں۔ مسلمانوں نے قیصر و کسریٰ کو شکست دی تو جہاد کی برکت سے۔ طارق بن زیاد نے اسپین کا بڑا حصہ فتح کیا تو جہاد کی برکت سے۔ محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تو جہاد کی برکت سے۔ مجاہدین نے وقت کی سپرپاور سوویت یونین کو شکست دی تو جہاد کی برکت سے۔ طالبان نے امریکا کو شکست دی تو جہاد کی برکت سے۔ حد تو یہ ہے کہ جتنا کشمیر ہمارے پاس ہے وہ بھی جہاد کی برکت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی زندہ ہے تو جہاد کی برکت سے۔ بلاشبہ پاکستان مسلح جہاد کا نتیجہ نہیں ہے مگر دو قومی نظریہ اور اس کے تحت آنے والی جدوجہد کسی طرح بھی ’’سیاسی جہاد‘‘ سے کم نہ تھی۔ جس زمانے میں پاکستان کا مطالبہ کیا گیا اس زمانے میں قومیں جغرافیے، زبان اور نسل سے وجود میں آئی تھیں مگر قائد اعظم نے کہا کہ مسلمان اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی انفرادیت کی وجہ سے ایک الگ قوم ہیں۔
یہ بات سیاسی جہاد سے کسی طرح بھی کم نہ تھی۔ چناں چہ بھارت کا بھی ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے جہاد۔ حتمی جہاد۔ فیصلہ کن جہاد۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ جنگیں تو کئی لڑی ہیں مگر جہاد ایک بار بھی نہیں کیا۔ حالاں کہ جنگ اور جہاد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جنگ مال و زر اور زمین کے لیے کی جاتی ہے جب کہ جہاد کا نعرہ لاالہ الااللہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جہاد اللہ کی کبریائی کے اعلان اور اس کے نفاذ کی آرزو کے سوا کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ جہاد سے کیوں گریزاں ہے؟
اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ ہمارے حکمران اللہ کی طرف دیکھنے کے بجائے دنیا کی طرف دیکھتے ہیں۔ دنیا سوویت یونین کے خلاف جہاد کو جہاد تسلیم کرتی ہے، تو پاکستان کا حکمران طبقہ جہاد کا علمبردار بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ امریکا اور اس کے حواری جہاد کے خلاف ہوجاتے ہیں تو پاکستان کا حکمران طبقہ جہاد کی پشت پناہی کو خود پر حرام کرلیتا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کی ایک مشکل یہ ہے کہ اس کے لیے ہر چیز ایک حربہ یا Tactic ہے۔ اس کے لیے جہاد بھی ایک حربہ ہے۔ حربے کا معاملہ یہ ہے کہ حربے کو جب چاہے اختیار کیا جاسکتا ہے اور جب جی چاہے چھوڑا جاسکتا ہے۔ حالاں کہ جہاد قیامت تک کے لیے ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کے احکامات کے بجائے ’’حالات‘‘ کو دیکھتے ہیں۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی کامیابیاں مشکل حالات میں حاصل کی گئی ہیں۔ قائد اعظم نے پاکستان مشکل حالات میں بنایا۔ وہ بیک وقت وقت کی واحد سپر پاور اور ہندو اکثریت سے لڑ رہے تھے یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ہمارے سول یا فوجی حکمران ہوتے تو اس وقت پاکستان کے خیالی پلائو پر اکتفا کرلیتے۔ شیخ چلی کہیں کے۔