امریکی صدارتی انتخابات اور بین الاقوامی لبرل ازم

413

محمد سمیع گوہر
ریاست ہائے متحدہ امریکا کے آئندہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں اگر ری پبلکن پارٹی کے امیدوار اور سابق نائب صدر جو بائیڈن ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انہیں اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا کہ کیا بین الاقوامی لبرل آرڈر کو بحال کرنا ہے یا نہیں؟ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا امریکا جمہوریت اور انسانی حقوق کو فروغ دینے کے لیے ناٹو میں شامل اتحادیوںکے ساتھ مل کر کام کرسکتا ہے۔ جبکہ بین الاقوامی خطرات کا سامنا کرنے کے لیے درکار اصولوں پر مبنی، عالمی خطرات کا سامنا کرنے کے لیے موجودہ قوانین کی موجودگی میں بین الاقوامی اداروں کا انتظام اور ریاستوں کو ایک وسیع تر سیٹ کے ساتھ تعاون کرسکتا ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ لبرل بین الاقوامی آرڈر عوامی جمہوریہ چین کے عروج اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابات کے ساتھ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن اگر جو بائیڈن نے نومبر کے انتخابات میں ٹرمپ کو شکست دے دی تو کیا اسے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ شاید نہیں، لیکن اسے تبدیل کرنا ہوگا۔ ناقدین یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ 1945کے بعد امریکن پالیسیاں نہ تو عالمی تھیں اور نہ ہی آزادانہ، اس نے آدھی سے زیادہ دنیا (امریکن بلاک اور چین) کو چھوڑ دیا جس میں متعدد آمرانہ ریاستیں شامل تھیں۔ امریکی تسلط ہمیشہ حاکمانہ رہا ہے، بہر حال سب سے زیادہ طاقتور ملک کو عالمی سطح پر عوامی مفاد کے لیے رہنمائی کرنی چاہیے یا نہیں کیا یہ خود امریکیوں کے لیے ایک تکلیف دہ بات نہیں ہے۔
کوویڈ 19 وبائی بیماری سے ہونے والی بڑے پیمانے پر تباہی ایک الگ مسئلہ ہے، اس لیے امریکی صدر منتخب ہونے پر جوبائیڈن انتظامیہ کو ایک حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی اور مختلف امور کے لیے مختلف قواعد پر مبنی عالمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس موقع پر سوال یہ پیدا ہوگا کیا روس اور چین اس میں شریک ہونے پر راضی ہوجائیں گے؟۔ 1990 اور 2000 کی دہائیوں کے دوران نہ تو امریکی طاقت میں توازن قائم ہو سکا اور نہ ہی وہ آزاد خیال اقدار کے حصول میں خودمختاری کو پیچھے چھوڑ سکا۔ امریکا نے سربیا پر بمباری کی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر عراق پر حملہ کردیا، گو کہ اس نے 2005 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراداد کی بھی حمایت کی تھی جس میں شہریوں پر ان کی اپنی حکومتوں کے ذریعہ طاقت کے بے دردی سے استعمال کی مذمت کی گئی تھی۔ ناقدین نے اس صورتحال کو سرد جنگ کے بعد امریکی جبر قرار دیا ہے۔ روس اور چین نے ان کے ساتھ ہونے والی دھوکا دہی کے احساس کے طور پر لیا، مثال کے طور پر جب لیبیا میں ناٹو کی زیر قیادت مداخلت کے نتیجے میں حکومت تبدیل کی گئی جس کو امریکا کے حامیوں نے بین الاقوامی انسانی قانون کے فطری ارتقاء کے طور پر پیش کیا۔ روس اور چین نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں خود مختاری کے اصول پر زور دیا ہے جس کے مطابق ریاستیں صرف دفاع کے لیے سلامتی کونسل کی منظوری سے جنگ میں جاسکتی ہیں۔ ہمسایہ ملک کے علاقے پر طاقت کے ساتھ قبضہ کرنا 1945کے بعد شاذو نادر ہی ہوا ہے اور جب ایسا ہوا تو اس ملک پر بہت بھاری پابندیاں عائد کی گئیں (جیساکہ روس نے 2014میں کریمیا کے ساتھ الحاق کیا تھا)۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل نے اکثر شورش زدہ ممالک میں امن فوج کی تعیناتی کی اجازت دی اور سیاسی تعاون نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے اور بیلسٹک میزائیلوں کے پھیلائو کو محدود کردیا ہے، قواعد پر مبنی آرڈر کی یہ جہت بہت اہم ہے۔
آج کے دور میں ہم اپنے طویل مطالعے، کتابوں کے جائزے اور انٹرویوز سمیت دنیا کے ممتاز مفکرین کے خیالات اور آراء سے لامحدود استفادہ کرسکتے ہیں۔ کچھ سال پہلے سالانہ پرنٹ میگزین، مکمل پی ایس محفوظ شدہ دستاوایزات اور زیادہ سب ایک یا دو ڈالر سے کم میں حاصل کرلیتے تھے۔ جہاں تک معاشی تعلقات کی بات ہے تو قواعد میں ترمیم کی ضرورت ہوگی، وبائی بیمار سے پہلے چین کی ہائبرڈ ریاستی سرمایہ داری نے ایک غیر منصفانہ مرچن سازی ماڈل کی حمایت کی جس نے عالمی تجارتی تنظیم کے کام کو مسخ کردیا تھا اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر سپلائی چین کا نظام خاصا افراتفری کا شکار ہوگیا تھا خاص طور پر جہاں قومی سلامتی کا تعلق تھا۔ اگرچہ چین شکایت کرتا ہے جب امریکا مغرب میں ہواوے جیسی کمپنیوں کو 5Gٹیلی کمیونیکیشن کے نیٹ ورک بنانے سے روکتا ہے لیکن یہ پوزیشن خود مختاری کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ دوسری جانب چین سیکورٹی وجوہات کی بنا پر گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر کو اپنے ہاں کام کرنے سے روکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق تجارت کے نئے قوانین پر تبادلہ خیال کرنے سے ڈیلنگ کو بڑھنے سے روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایک ہی وقت میں موجودہ معاشی بحران کے باوجود اہم مالیاتی ڈومین میں تعاون مستحکم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ماحولیاتی باہمی انحصار خود مختاری کے لیے ناقابل تسخیر رکاوٹ ہے کیونکہ خطرات بین الاقوامی ہیں۔ معاشی عالمگیریت میں کسی بھی قسم کی ناکامیوں سے قطع نظر ماحولیاتی عالمگیریت جاری رہے گی کیونکہ یہ حیاتیات اور طبیعات کے قوانین کی پابندی کرتی ہے، عصری جغرافیائی سائٹ کی منظوری نہیں۔ اس طرح کے مسائل ایک خطرہ ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی ملک ان کا تنہا انتظام نہیں کرسکتا ہے۔ کوویڈ 19اور آب و ہوا کی تبدیلی جیسے معاملات بھی قابل غور ہیں۔
اس تناطر میں دوسروں پر طاقت کے استعمال کے بارے میں سوچنا بھی مناسب نہیں ہے۔ ہمیں دوسروں کے ساتھ طاقت کے استعمال کے معاملے میں بھی سوچنا چاہیے۔ پیرس آب و ہوا کا معاہدہ اور عالمی ادارہ صحت ہمارے ساتھ دوسروں کی بھی مدد کرتا ہے۔ چونکہ 1972 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن اور چین کے سربراہ چیئرمین ماوزے تنگ کے درمیان ملاقات ہوئی تھی دونوں ملکوں نے نظریاتی اختلافات کے باوجود تعاون کیا۔ امریکی صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے لیے یہ مشکل سوال ہوگا کہ کیا امریکا اور چین عالمی عوامی مفادات کے ضمن میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں جبکہ دونوں ممالک کے وقت اس شدید تنائو اور مزاحمتی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔