اسرائیلی سازش اور نیکٹا کا حملہ

612

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے خبردار کیا ہے کہ سی پیک منصوبے والے علاقوں میں فرقہ وارانہ، لسانی، علاقائی اور حقوق کی آڑ میں فسادات کی سازش ہو رہی ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف اسلامی نظریاتی کونسل میں مختلف مسالک کے درمیان روابط کے سلسلے میں سیمینار سے خطاب کے دوران کیا۔ اس سیمینار سے وفاقی وزیر مذہبی امور نے بھی خطاب کیا اور انہوں نے بھی پاکستان میں مختلف مذہبی فقہوں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔ قبلہ ایاز اور وفاقی وزیر دونوں نے اسرائیل میں بیٹھی کسی خاتون کا ذکر کیا کہ وہ پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ فرقہ وارانہ مواد اپ لوڈ کرتی ہے پھر شیعہ اور سنی خود اسے پھیلاتے ہیں۔ وفاقی وزیر نے پاکستان کے تمام فقہوں کے علمائے کرام کے درمیان ہم آہنگی اور حسن اتفاق کا ذکر کیا۔ قبلہ ایاز کی بات میں دہری تشویش ہے یعنی فرقہ وارانہ لسانی اور علاقائی فسادات اور سی پیک کو نشانہ بنانا۔ دونوں ہی پاکستان کی معاشی اور نظریاتی بنیادیں ہیں۔ دونوں ذمے داران نے اسرائیل میں بیٹھی خاتون کا ذکر کیا ہے اور اسرائیل سے پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کی سازش کا ذکر کیا ہے لیکن اتفاق کی بات ہے وفاق کی ناک کے نیچے نیشنل کائونٹر ٹیرازم اتھارٹی نیکٹا کے زیر اہتمام امن و رواداری کے عنوان سے ہونے والے مقابلے میں رواداری کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی پرچم والے پوسٹر کو پہلی پوزیشن دے دی گئی۔ نیکٹا وفاقی حکومت کا ادارہ ہے اس کا کام پوسٹروں کا مقابلہ ہے یا نہیں یہ تو وفاقی حکومت اس سے پوچھے گی لیکن ایک سرکاری ادارے نے ایسے ملک کے پرچم والے پوسٹر کو اول انعام دے دیا جس کو پاکستان تسلیم ہی نہیں کرتا۔ اس کو تسلیم نہ کرنے میں سیاسی اور جغرافیائی سے زیادہ نظریاتی اوامر مانع ہیں۔ قبلہ ایاز اور پیر نور الحق قادری اسرائیلی سازش کی بات کر رہے ہیں لیکن اسرائیلی سازش تو سرکاری اداروں تک پہنچ چکی ہے۔ کیا حکومت نیکٹا کو نکیل ڈالے گی۔ اس کے ذمے داران کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے گی؟ ایسا لگتانہیں۔فرقہ وارانہ مواد کا جواب تو علمائے کرام دیتے رہتے ہیں اور پھر دے دیں گے۔ دونوں حضرات کے علم میں ہوگا کہ ملی یکجہتی کونسل کے نام سے تمام مکاتب فکر کے جید رہنمائوں پر مشتمل تنظیم موجود ہے اور اس تنظیم نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کا یہ شکوہ بھی بے جا ہے کہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ محرم الحرام کی آمد پر انتظامی افسران علمائے کرام کو پرامن رہنے کی تلقین کر رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کا یہ جملہ سخت قابل اعتراض ہے۔ کیا صرف محرم الحرام میں پرامن رہنا ضروری ہے اور انتظامی افسران ربیع الاول، رمضان المبارک اور دیگر مہینوں میں تمام مکاتب فکر کے علما سے پرامن رہنے کی اپیل کیوں نہیں کر رہے ہوتے۔ اس کا مطلب تو حکومت کا ایک جانب جھکائو ہے۔ مختلف مذہبی رہنما بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت خود فرقہ واریت کو ہوا دیتی ہے۔ رمضان المبارک میں اس کا ایک نمونہ بھی پیش کیا گیا تھا۔ انتظامی افسران کو کیا ضرورت ہے کہ وہ علما کے اجلاس بلائیں اور ان کو ہدایات دیں۔ علمائے کرام خود ملی یکجہتی کونسل اور دیگر اجلاسوں میں ہر نازک موقع پر امن وامان اور مذہبی ہم آہنگی برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مذہبی منافرت اسرائیل یا کسی اور ملک کو پھیلانے کی کیا ضرورت ہے جب پاکستان کی حکومتی مشینری میں ایسے عناصر موجود ہوں جو خود مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے والے اقدامات کرتے ہیں۔ فی الحال تو حکومت پاکستان وفاقی وزیر مذہبی امور اور چیئرمین نظریاتی کونسل کی جانب سے یہودی سازش کے بارے میں انکشاف پر توجہ دے اور نیکٹا کے مقابلے میں اسرائیلی پرچم والے پوسٹر کو پہلا انعام دیے جانے کے معاملے پر غور کرے۔ یہ مسئلہ بہرحال اہم ہے کہ سماجی ذرائع ابلاغ پر آنے والی پوسٹوں کی بنیاد پر لوگ جھگڑوں میں پڑ جائیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کم ازکم پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ ایسے مواد پر سماجی ذرائع ابلاغ ہی میں گرما گرمی رہتی ہے۔ تصادم اور فساد اس وقت ہوتا ہے جب حکومت کسی ایک گروہ کی حمایت یا اس کی جانب جھکائو ظاہر کرتی ہے یا مجبور ہو جاتی ہے۔ ہر صورت میں ردعمل آنا ضروری ہے۔ وفاقی وزیر نے زور دے کر کہا ہے کہ حکومت کی رٹ ہر صورت میں بحال رکھیں گے۔ جناب پیر صاحب حکومت کی رٹ سے زیادہ اہم شریعت دین، انبیاؐ، صحابہؓ اور امہات المومنینؓ ہیں ان کی عزت و وقار کا احترام کرنا اور کرانا حکومت کی رٹ ہے نہ کہ حکومت کا ڈنڈا چلا کر کسی کو بھی ہانک دینے کا نام رٹ ہے۔ حکومت میں عموماً دین بیزار لوگ ہوتے ہیں لیکن موجودہ حکومت میں جو لوگ ہیں وہ دین کا مذاق اڑانے اور اس سے بیزاری کے اظہار میں دوسروں کے مقابلے میں حد سے بڑھ چکے ہیں جب حکومت قادیانیوں کی سرپرستی کرے گی، بھارت کے گھٹنے چھوئے گی، چینی مسلمانوں پر مظالم پر کاموش رہے گی، مغرب کی خواہش پر تعلیمی نصاب تبدیل کرے گی تو رٹ کہاں سے قائم ہو گی۔