احسان اللہ احسان کو فرار کرنے میں مدد فراہم کی گئی، بریگیڈیئر کا انکشاف

1522

احسان اللہ احسان نے، جن کا اصلی نام لیاقت علی اور تعلق سابق قبائلی علاقہ مہمند ایجنسی سے ہے، 2017 میں خود کو ایک معاہدہ کے تحت پاکستانی حکام کے حوالہ کیا تھا اور رواں سال فروری میں انہوں نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعہ اپنے فرار کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ 12 جنوری (2020) کو وہ اپنے خاندان سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

انڈی پینڈنٹ اردو کے مطابق احسان اللہ احسان کا آڈیو میسج ان کے نام سے یو ٹیوب چینل پر اپ لوڈ کیا گیا اور تقریبا اسی وقت اس کا لنک احسان اللہ احسان کے نام سے موجود ٹویٹر ہینڈل پر بھی شیر ہوا ہے جس میں انہوں نے پاک سیکورٹی کی قید سے فرار ہونے کی روداد کو تفصیلاً سنایا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے اس پیغام میں اپنے فرار کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے نام ایک خط لکھنے کی بھی بات کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس خط کا جواب نہیں ملا۔

حالیہ پیغام میں احسان اللہ احسان نے پاکستانی حکام کے اس دعویٰ کی تردید کی کہ وہ اس سال جنوری میں کسی حساس آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز کی حراست سے فرار ہوئے تھے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ انہیں پشاور کے شامی روڈ پر واقع جس سیف ہاؤس میں رکھا گیا تھا وہاں آتے ہی انہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہاں سے نکلنا آسان ثابت ہو گا اور انہوں نے فرار کا پلان بنانا شروع کر دیا تھا۔

احسان اللہ احسان نے کہا کہ انہوں اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ان کے فرار کا علم کافی دیر کے بعد محافظوں کو ہو تاکہ انہیں محفوظ مقام تک پہنچنے کا موقع مل جائے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے فرار ہونے سے دو روز قبل مکان کے پچھلے دروازہ کو لگا تالا توڑا اور مین گیٹ پر لگی گھنٹی بھی خراب کر دی۔ سیف ہاؤس سے نکلنے سے کچھ دیر قبل میں نے حسب معمول رہائشی حصہ کے سامنے کے تمام دروازے بند کر دیے تاکہ گارڈز جو اس وقت اپنے کوارٹر میں کھانا کھا رہے تھے رہائشی حصہ میں آ نہ سکیں۔

اس عمل کے بعد میں عشا کے وقت گھر کے پچھلے دروازہ سے باہر نکلا اور ٹیکسی میں بیٹھ کر حاجی کیمپ اڈہ پہنچا جہاں میں نے ایک دوسری گاڑی لی۔ 20 گھنٹوں کے سفر کے بعد میں پاکستان کی حدود سے باہر نکل گیا۔

سکیورٹی تجزیہ کار برگیڈئیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ کا خیال ہے کہ احسان اللہ احسان فرار نہیں ہوئے بلکہ انہیں حراست سے بھاگنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔

برگیڈئیر محمود شاہ کا کہنا تھا کہ احسان اللہ اپنے گروپ کا نہ کمانڈر تھا نہ اس کے پاس کوئی اہم معلومات تھیں۔ اسی لیے وہ سکیورٹی ایجنسی کے لیے بےکار ثابت ہوا بلکہ ایک بوجھ بن کر رہ گیا جس کی وجہ سے اسے بھاگنے دیا گیا۔