مہاتر محمد، ملائیشیا کا مردِ حُر

441

ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتر محمد نے کوالالمپور میں پانچ اگست کو یکجہتی کشمیر کے نام سے منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں بھارت کے حوالے سے جرأت مندانہ لب ولہجہ اپنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جنرل اسمبلی میں انسانیت کے لیے کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔ کشمیر پر خاموش رہنا کوئی آپشن نہیں کشمیری عوام سخت محاصرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ عالمی برداری کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ مہاتر محمد کا کہنا تھا کہ بھارت علاقائی بدمعاش کا کردار چھوڑ کر ایک ملک کے طور پر سامنے آئے۔ میں نے جنرل اسمبلی میں بھارت کے بارے میں جو کچھ کہا اس پر کبھی معافی نہیں مانگوں گا۔ انہوں نے اس موقف کے باعث ہونے والے معاشی نقصان کا ذکر بھی کسی تاسف اور احساس زیاں کے بغیر کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے مہاتر محمد کو یہ موقف اپنانے پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مہاتر محمد کو سابق ہوئے کئی ماہ ہوگئے ہیں مگر وہ اب بھی حق، سچ اور اصول کی راہ کے راہی ہیں۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جن معدودے چند عالمی قائدین نے اس عالمی نظام کے تضادات پر گہری ضربیں لگائیں اور ان تضادات کو اجاگر کیا ان میں ملائیشیا کے مرد آہن ڈاکٹر مہاتر محمد شامل تھے۔ جنہوں نے اس فورم پر نہ صرف کشمیر اور فلسطینی عوام کی حالت زار پر کھل کر بات کی بلکہ ان دونوں اقوام کو اس حال تک پہچانے والے دو عالمی بدمعاشوں کے رویے اور کردار کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ آواز بلند کرنے والوں میں عمران خان، طیب اردوان، حسن روحانی نمایاں تھے۔ طیب اردوان اور مہاتر محمد کو مظلوموں کی حمایت میں کھڑا ہونے کی معاشی قیمت بھی چکانا بھی پڑی مگر آفرین ہے ان مردان حُر پر جنہوں نے اپنا موقف واپس لینے سے صاف انکار کیا۔
بھارت ملائیشیا کے پام آئل کا سب سے بڑا خریدار تھا مہاتر محمد کی تقریر کے بعد بھارت نے بیان واپس لینے یا پام آئل کے معاہدے منسوخ کرنے کی دھمکی دی۔ مہاتر محمد نے اس شرط کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا اور نتیجے میں بھارت نے ملائیشیا کا پام آئل خریدنا بند کر دیا۔ ایک ایسے ماحول میں یہ جرأت رندانہ تھی کہ جب دنیا نے اپنی آنکھوں پر معاشی مفادات کی پٹی چڑھا رکھی ہے۔ انصاف، اصول، سچ، حق انسانیت ہر چیز کو اسی معاشی مفاد کی عینک سے دیکھا جا رہا تھا اور تجارت انسانیت پر غالب آگئی ہے۔ اس ماحول میں کچھ دیوانے ایسے ہیں کہ جو دنیا کو اصول، انصاف کی عینک سے دیکھنے پر اصرار کر رہے ہیں مہاتر محمد انہی میں ایک ہیں۔ مہاتر محمد نے جس وقت جنرل اسمبلی میں بھارت کو للکارا تو عمران خان کی طرح ان کی حکومت مانگے تانگے کی سیٹوں اور معاہدات کی بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ اس وقت امریکا اور چین کی کشمکش ملکوں کی داخلی سیاست پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔
امریکا دنیا میں اپنے پسندیدہ، چنیدہ اور اپنے بینکوں میں دولت رکھنے والے اور اپنے شہروں میں جائدادوں کے حامل سیاست دانوں کو ہر ملک میں اقتدار دلانا چاہتا ہے تاکہ ان کے ذریعے اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھائے۔ اس کے برعکس چین کی کوشش ہے کہ ہر ملک میں امریکا کی اس خواہش اور کوشش کے آگے بند باندھا جائے۔ بہت سے ملکوں میں جاری سیاسی کشمکش کا تعلق اس نادیدہ عالمی رسہ کشی سے ہے۔ مہاتر محمد، عمران خان، طیب اردوان اور ایرانی حکومت اس وقت اپنے ملکوں کو امریکی اثر رسوخ سے آزاد کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ جنرل اسمبلی میں تقریر کے بعد مہاتر محمد کے لیے حالات ایسے بنے کہ انہیں عہدے سے استعفا دینا پڑا۔ ان کے استعفے کے بعد اب ملائیشیا کا وزیر اعظم کون ہے؟ کسی کو علم نہیں۔ اس کا کشمیر اور فلسطین پر کیا موقف ہے؟ یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ نہ اس کے بعد ملائیشیا سے اس قدر توانا آواز بلند ہورہی ہے۔ اقتدار سے الگ ہونے کے باوجود مہاتر محمد طیب اردوان کی طرح ایک اصول پر کھڑے اور ڈٹے ہیں جس کا ثبوت پانچ اگست کو کشمیر سیمینار میں ان کا خطاب ہے۔ ہم فلسطین کے لیے اپنی خدمات اور خسارہ گنوا کر تھکتے نہیں مگر مہاتر محمد نے ملائیشیا کے کسی صوبے کے لیے نہیں جزائر ملاکا کے لیے نہیں دور کشمیر کے لیے آواز بلند کی اور اس نعرہ مستانہ اور جرأت رندانہ کی معاشی اور سیاسی قیمت بھی چکائی۔ اس کے باجود حرف شکایت لبوں پر لائے اور نہ ہی احسان جتلانے کا انداز نہیں اپنایا کیونکہ وہ دنیا میں ایک اصول کے ساتھ کھڑ ے ہیں۔ جس بات کو صداقت سمجھا اس کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے معاش اور تجارت کی پرستش کا مذہب اپنانے سے انکار کیا ہے۔ اصول پر کھڑا ہونے کی قیمت چکانا پڑتی ہے کیونکہ اصول ہی میں انسانیت کی بقا ہوتی ہے۔ دنیا میں اگر بے اصولی کا اصول رائج ہوگیا تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں ایک بار پھر جنگل کا قانون آگیا اور حقیقت میں تجارت کے بت کے آگے سجدہ ریز کرکے دنیا کو جنگل کے قانون کی طرف ہی دھکیلا جا رہا ہے۔