کراچی کے مسائل پر چیف جسٹس کے ریمارکس

377

عدالت عظمیٰ کے سربراہ جسٹس گلزار احمد نے میئر کراچی کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میئر، کراچی کی جان چھوڑیں، کیا حال کر دیا ہے کراچی کا۔ شہر سے دشمنی نکال رہے ہیں۔ اختیارات نہیں تو گھر جائو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں نے کام کرنے کے لیے ووٹ دیا تھا، لوگ آتے ہیں اور جیب بھر کر چلے جاتے ہیں۔ عدالت نے یہ ریمارکس دینے کے علاوہ کے الیکٹرک پر بھی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ کے الیکٹرک کے سربراہ اور ڈائریکٹرز کو گرفتار کرکے ان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔ عدالت نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ کے الیکٹرک کو کراچی کی بجلی بند کرنے کی ہمت کیسے ہوئی۔ بجلی کا نظام تباہ کر دیا۔ اربوں کھربوں روپے کما لیے۔ کرنٹ سے روز لوگ مر رہے ہیں۔ نیپرا کچھ نہیں کر رہی، سب کی ایف آئی آر کے الیکٹرک کے سی ای او کے خلاف کاٹی جائے، ضمانت نہیں ہونی چاہیے۔ عدالت عظمیٰ کے ریمارکس سن کر عوام کو بڑی ڈھارس ہوئی ہوگی۔ کم ازکم کہیں سے تو ایک طاقتور آواز آئی۔ لوگ منتظر ہیں کہ کے الیکٹرک کے سربراہ اور ڈائریکٹرز کے خلاف کب ایف آئی آر کٹتی ہے۔ کب ان کو سزا ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس سے کراچی کی ایک اچھی تصویر ذہنوں میں ابھر رہی ہے۔ جس میں بجلی نہیں جائے گی، شہر کا بجلی کا نظام ٹھیک ہو جائے گا۔ کرنٹ لگنے سے اموات ختم ہوجائیں گی۔ کڈنی ہل پارک کی زمین واگزار ہو جائے گی اور آئندہ کسی چیف جسٹس کو بل بورڈز اتروانے کی ہدایت نہیں دینی پڑی گی۔ پاکستان کے تقریباً تمام چیف جسٹس صاحبان یا ہائیکورٹ کو کئی کئی مرتبہ بل بورڈز ہٹوانے کی ہدایت کرنی پڑتی تھی۔ اب اس بات کی بھی امید ہو چلی ہے کہ سرکلر ریلوے بھی بن جائے گی اور اسی سال سرکلر ریلوے چل پڑے گی۔ اب نالوں پر سے تجاوزات بھی ختم ہو جائیں گی۔ یقیناً عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس کا حکم اور ان کے ریمارکس نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد نے خود ریمارکس دیے ہیں کہ مافیاز حکومتوں کو پالتی ہیں۔ حکومتیں ان کا کیا بگاڑیں گی۔ کچھ کیا تو ان کا دانہ پانی بند ہو جائے گا۔ سندھ میں حکومت ہے نہ قانون۔ وزیراعلیٰ صرف ہیلی کاپٹر پر دورہ کرکے آجاتے ہیں، ہوتا کچھ نہیں۔ ایسے میں اگر چیف جسٹس اپنے فیصلے میں بھی لکھ دیں کہ فلاں فلاں کو گرفتار کر لیا جائے تو بھی کچھ نہیں ہوگا کیونکہ مافیاز کے دانے پر پلنے والے حکمران عدالت کے احکامات پر کیسے عمل درآمد کریں گے اور ہوتا بھی یہی ہے۔ عدالت نے دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں ضبط کرنے اور ان کے لائسنس منسوخ کرنے کا حکم دیا لیکن یہ بسیں اور ٹرک دھواں چھوڑتے اور سڑکوں پر چلتے رہے۔ یہاں تک کہ بسیں خود ہی بند ہو گئیں۔ عدالت عالیہ سندھ اور عدالت عظمیٰ نے کراچی میں بل بورڈز ہٹانے کا حکم کئی مرتبہ دیا لیکن یہ بورڈز پھر لگ جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حکمران ہی مافیاز کے دیے ہوئے دانے پر گزارا کرتے ہیں۔ مافیاز کے ہاتھ بہت دور اور اوپر تک جاتے ہیں اس ملک میں تو مافیا کے مستند سربراہ نے اعلیٰ ترین منصب بھی حاصل کیا تو کیا عجب ہے کہ عدالتوں تک ان کی مہربانیاں اور دائرہ نہ پہنچا ہو۔ چیف جسٹس کے اچھے اچھے ریمارکس اپنی جگہ لیکن اہل کراچی کا مسئلہ ایک دو جملے نہیں چھوٹے موٹے فیصلے نہیں بلکہ طویل مدتی اقدامات سے حل ہوگا۔ اگر چیف جسٹس چاہتے ہیں کہ ان کے ریمارکس جگمگاتے ہوئے فیصلوں کی شکل میں اس شہر میں نظر آئیں تو وہ کراچی میں مستقل عدالت لگا لیں۔ ان کے اپنے بہت سے فیصلے ایسے ہیں جن پر عمل ان ہی مافیاز کی وجہ سے نہیں ہو رہا۔ جب چیف جسٹس کراچی میں مستقل بیٹھیں گے اور ہر ہفتے رپورٹ لیں گے تو معاملات درست سمت کی جانب چلیں گے۔ لیکن کراچی کا مسئلہ اس سے بھی حل نہیں ہوگا۔ اس شہر کو لوٹنے کے لیے پہلے مافیا نے ایم کیو ایم کو مسلط کیا وہ خود مافیا بن گئی۔ پھر سندھ حکومت نے بلدیہ کے اداروں کو ایک ایک کرکے اپنے ماتحت کر لیا اور ایک اعتبار سے وہ خود مافیا بن گئی۔ ان مافیاز سے شہر کی جان چھڑانے کے لیے آزادانہ الیکشن واحد راستہ ہیں جن میں حکومت فوج، رینجرز، ایجنسیوں وغیرہ کی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر عدالت عظمیٰ ایسے شفاف اور آزادانہ انتخابات کو یقینی بنا لیتی ہے اور کراچی کو اس کی حقیقی نمائندہ مخلص قیادت مل جاتی ہے تو کراچی کے مسائل وہ قیادت حل کرے گی۔ چیف جسٹس کو یہاں بیٹھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ البتہ سندھ حکومت نے بلدیایت کے جن محکموں پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے انہیں واپس بلدیات کے حوالے کروانا ہوگا۔ یہ کام بھی عدالت عظمیٰ کو کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس کے ریمارکس سے ایسا محسوس ہوا کہ صرف موجودہ میئر جان چھوڑ دیں گے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ایسا نہیں ہے جب تک اس ٹولے سے نجات نہیں ملے گی جو 1987ء سے شہر پر مسلط ہے اس وقت تک بہتری نہیں آئے گی۔ نام بدلنے سے مافیاز کے کام نہیں بدلتے۔ اسی طرح کے الیکٹرک کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ مسئلہ صرف بجلی بند کرنا اور کرنٹ لگنا ہے ایسا ہے لیکن شہریوں کے اربوں روپے لوٹے جا رہے ہیں۔ بجلی کے اضافی بلز اور تیز رفتار میٹرز مسئلہ ہیں۔ وصول شدہ رقوم کی واپسی مسئلہ ہے۔ یہ معاملات محض ریمارکس سے حل نہیں ہوں گے۔ عدالت کو بہت سا وقت لگانا ہوگا۔