تاریخ کا سبق

500

دنیا کی ہر قوم کے دانش وروں نے یہی سبق دیا ہے کہ نیک کام میں کبھی دیر مت کرو اور برے کام میں کبھی عجلت مت کرو مگر جس طرح تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا اسی طرح بزرگوں کی نصیحت پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔ اردو کے ممتاز شاعر منیر نیازی فطرتاً دیر پسند تھے۔ ہر کام میں دیر کر لیا کرتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ کسی عزیز ترین دوست کو ملاقات کا وقت دے کر اتنی دیر کردیا کرتے تھے کہ وہ اکتا کر چلا جاتا۔ سنا ہے نیازی صاحب رات بھر وہیں اس کا انتظار کرتے کرتے سو جایا کرتے تھے۔ ملازمت کے معاملے میں بھی اپنی روٹین پر عمل کیا کرتے تھے۔ دیر کرنے کی عادت سے تنگ آ کر دفاتر پیغام بھیج دیا کرتے تھے کہ آپ گھر پر ہی آرام کریں۔ دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے۔ مگر ہم من حیث القوم دیر پسند ہیں۔ اگر اس معاملے میں بحر الکاہل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ نیب کئی برسوں سے حکومت مخالفین کو جب چاہے دفتر میں بلا کر حراست میں لے لیا کرتی ہے۔ ہم نے بارہا انہی کالموں میں گزارش کی ہے کہ عدالت عظمیٰ کی بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔ حکومت کی فرعونت سے بچائے مگر جہاںآوا کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو وہاں سدھار کی جانب کوئی توجہ نہیں دیتا، کچھ ایسا ہی نیب کے معاملے میں ہوتا رہا اور عدالتیں منہ میں گھنگھنیاں ڈالے خاموش تماشائی بنی رہیں۔ عدالت عظمیٰ کو کیا ہوا؟ شاید مزاج دشمناں ناساز ہیں اچانک ہی اسے اپنی ذمے داری کا احساس ستانے لگا۔ شاید کورونا وائرس نے خد ا کی یاد دلا دی اور اس نے نیب کی کاروائی کو غیر قانونی قرار دے کر محتاط رہنے کی تلقین کرڈالی اب دیکھنا یہ ہے کہ نیب کی بگڑی ہوئی عادت سنورنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ یا وہ اپنا دوسرا کان جھاڑ کر حکومت وقت کے ساتھ وقت گزارنے کو اہمیت دیتی ہے۔ یوں بھی سارا معاملہ اہمیت ہی کا ہوتا ہے جو جس کی نظر میں اہم ہوتا ہے وہی معتبر اور معزز ہوتا ہے۔ رہا معاملہ نوٹیفیکیشن اور آڈیننس کا تو ان کا کیا ہے یہ تو آتے جاتے ہی رہتے ہیں۔ اور جو چیز آنی جانی ہو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہاں صرف آنیاں اور جانیاں ہی دیکھی جاتی ہیں۔ اہمیت استحکام کی ہوتی ہے اور ہمارے ہاں اہمیت صرف اقتدار کی ہے۔ جس کے دائرہ اختیار میں اقتدار ہو وہی اہم ہوتا ہے۔
نیب کی خودسری اور خودپسندی کی جو تصویر عدالت عظمیٰ میں پیش کی ہے اور ان کے جن کارناموں کا نفرت انگیز انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ اس کے پیش نظر آئین کے ماہرین کی نظر میں نیب کا وجود بے معنی ہوچکا ہے ان کا کہنا ہے کہ ملک کو مزید رسوائی اور جگ ہنسائی سے بچانے کے لیے نیب کے محکمے کو ختم کردیا جائے، مگر چودھری فواد کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ پولیس کی کارکردگی اور اس کی خودسری کے بارے میں بارہا اس سے بھی سخت ریمارکس دی چکی ہے اس لیے نیب کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ شاید وہ بین السطور یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ حکومت کے بارے میں بھی انتہائی سخت ریمارکس دے چکی ہے ایسے ریماکس جنہیں سن کر فو ج کے کان کھڑے ہوجانا ایک یقینی عمل تھا۔ مگرنہ تو فوج کے کان کھڑے ہوئے اور نہ ہی فوج کھڑی ہوئی اور حکومت اپنی من مانیاں کرتی رہی اور کررہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا منشور ہی مخالفین کی پگڑیاں اچھالنا، ان کے گریبان چاک کرنا ہے۔ مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ماں بھی ایک خاص وقت تک بچے کو دودھ پلاتی ہے ہم ایک عرصے سے انہی کالموں میں نیب کی غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں قوم اور عدالت عظمیٰ کو بتا رہے ہیں اور یہ التجا بھی کررہے ہیں کہ نیب کو سرکاری اور اغوا کاری کا محکمہ نہ بنایا جائے۔ ساری دنیا ہمارا مذاق اڑا رہی ہے اور استفسار کر رہی ہے کہ پاکستان کا یہ کیسا قانون ہے کہ گرفتار پہلے کیاجاتا ہے اور ملزم بعد میں ٹھیرایا جاتا ہے اور پھر زیر حراست بندے پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ جو الزامات لگائے گئے ہیں انہیں قبول کرلے۔ تاکہ عدالت میں پیش کیا جاسکے اور اوپن کارگزاری کا تمغہ اپنے سینے پر سجا لیا جائے۔ خدا جانے عدالتیں کن کاموں میں مصروف تھیں کہ وہ اس معاملے پر توجہ ہی نہ دے سکیں اب خیال آیا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ یہ خیال عملی صورت اختیار کرتا ہے یا نہیں۔ ہمارے خیال میں نجومی کا یہ خیال درست ثابت ہورہا ہے کہ میاں نوازشریف کے ستارے گردش سے نکل آئے ہیں۔ مگر نجومی کے خیال سے متفق ہونا مشکل ہے کہ وزیرا عظم عمران خان کے ستارے بہت روشن ہیں کیونکہ یہ ایک ایسا تضاد ہے جو دریا کے دو کناروں کی طرح ہے۔ جب تک عمران خان کے ستارے روشن ہیں میاں نواز شریف کے ستارے گردش میں رہیں گے مگر اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ستاروں کا حال بتانے والے تو ہر ہفتے کوئی نہ کوئی خبر سناتے ہی رہتے ہیں۔ اور انداز بیاں ایسا دل کش ہوتا ہے کہ صرف نظر ممکن ہی نہیں رہتا۔ ہمارے جیسے بوڑھے بھی ملازمت کی خوشخبری پڑھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔ ہم نے ایسے بوڑھے بھی دیکھے ہیں جو قسمت کا حال پڑھ کر نئی شیروانی سلوا لیتے ہیں۔