اے میرے کشمیر!!

634

ڈاکٹر بشری تسنیم
جب سے آنکھ کھولی تو میرے خوابوں کی جنت ہی رہا ۔ تیری وادیوں کے حسن نے مجھے جنت کی جھلک دکھائ اور جنت نظیر کہنے والوں کی حسن نظر پہ پیار آیا ۔ یہ یقین ہمیشہ دل میں راسخ رہا کہ جنت کسی کافر اور مشرک کی جاگیر نہیں ہو سکتی ۔جنت جیسا مقام تو اہل توحید کا مقدر ہے ۔ مگر اب ہر دردمند دل میں خیال آتا ہے کہ جنت کے سبزہ زار پہاڑ اس کے پھلوں سے لدے درختوں کی بہار پہ خزاں کے ڈیرے کیوں ہیں؟
اس جنت کے باسی پریشان حال کیوں ہیں؟ اس کی فضاوں میں محبت کے ترانے گانے والے طائر کی بجائے گدھ کیوں منڈلا رہے ہیں ؟ جنت تو ابدی خوشیوں کا مظہر ہوتی ہے اس جنت ارضی میں دکھوں کی کی لامتناہی فصل کیوں اگ رہی ہے ؟ اے جنت نشاں منزل ! یہ کیسا نوحہ ہے جس کی صدا کسی ذی روح کے دل میں ارتعاش پیدا نہیں کرتی؟ پہاڑو ں کی بلندیوں پہ کھڑے ہو کر آواز دینے پہ بھی دنیا کی نظر تحت الثری کی تلاش میں ہے ۔
اے کشمیر ! تیرے ارض و سماء میں سلامتی کی کا سکون کہاں گیا؟ یہ خوف ودہشت تو جنت کی خوبی نہیں ہوتی ۔۔ میں ایک بے بس پرندے کی مانند کسی ٹنڈ منڈ درخت پہ بیٹھی آشیانہ نہ بنا سکنے کا کرب کس کو سناوں؟ وادیوں میں خنک فضاوں کی جگہ دھوئیں کی گھٹن میں سانس لینے کی مشقت کیسے کم کروں؟ تیرے ان نوجوان بیٹوں کی انگنت لاشوں سے لپٹی بہنوں ماوں اور جوان بیواوں کو کس لہجے میں تسلی دوں؟ اور ان معصوم بچوں اور مظلوم بزرگوں کے دل سے نکلتی بے آواز آہوں کا کرب کس منصف کے پاس جا کر ظاہر کروں ؟
آخر کب بت پرستوں کے حلق سے نکلتے فلک شگاف استہزائ قہقہے کسی توحید پرست صاحب اختیار کے کانوں پہ گراں گزریں گے؟ آخر کب تیرے ہم عقیدہ خواب غفلت سے جاگیں گے؟
اے میرے پیارے کشمیر !تو دنیا میں ہر اس جنت نظیر وطن کی علامت ہے جہاں بھی ظلم کی فصل اگائ جاتی ہے ۔ تیرے باسیوں پہ ہونے والا ظلم ہر اس وادی کا ظلم یاد دلاتا ہے جہاں بھی بے حس حکمرانوں نے دنیا دوسروں کے لئے جہنم بنائ ہوئ ہے ۔ سارے دکھی لوگ اگر ایک امت بن جائیں اور اپنے دکھوں کو حوصلے بلند کردینے کی علامت بنا لیں تو ظالم کے ہاتھ ٹوٹ سکتے ہیں ۔
اے کشمیر ! ان بے حس ظالم طاقتوں کی طاقت سے نہ گھبرا ،ظلم آخر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ ہی جاتا ہے ۔ اور جو ظالم کی اللہ سبحانہ و تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہو اس کے ساتھ اللہ تعالی کی دشمنی ہوتی ہے اور یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالی کے مقابلے میں آنے والا قدموں میں ثبات رکھتا ہو وہ بزدل ہوتا ہے کسی کمزور سہارے پہ کھڑا ہوتا ہے اور کمزور سہارے دیکھنے میں کیسے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں آخر کار شکست ا ن کا مقدر ہوتی ہے ۔
اے میرے محبوب کشمیر !غم نہ کھا ، میں ایک ماں کے روپ میں تجھ سے وعدہ کرتی ہوں کہ اپنی نسلوں کو جنت نظیر کی بہاروں سے ناآشنا نہیں رکھوں گی ۔ میں تیرے غم کو حوصلے کی ردا بنا لوں گی ۔ تیری وادی کے ہر ذرے سے میری وفا کی خوشبو آئے گی۔
اے مرے کشمیر ،میں اگر چہ تجھ سے دور اداسیوں کے نا آشنا سے صحراؤں میں آبلہ پا پھرتی ہوں۔ میں تجھ سے دور ہوں مگر مرے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں ترا ہی درد ہے اور یہ درد دل میں آ کر ٹھہر گیا ہے۔ ایک کانٹے دار شاخ دل میں پیوست ہے جس کا ہر کانٹا مجھے تری یاد، تری کسک اور ترا احساس دلاتا ہے۔
اے مرے کشمیر، مرے دل میں ترے نام کی ایک شمع فروزاں ہے اس سوزش میں احساس تپش بھی ہے تو عزم نو کی حرارت بھی۔
اے مرے کشمیر! اپنے پیچھے ایک واضح غم چھوڑ آئی ہوں۔ کوئی اس غم کا احساس نہیں کر پاتا۔ یہ غم آشنائی میرے وجود میں سرایت کر گئی ہے۔ فرقت کا وہ لمحہ جب چشم نم ہر در و دیوار کو دھنلا دیکھ رہی تھی۔ آج بھی اسی طرح آنسو میرے حلق میں تلخی کا پھندہ بنے ہوئے ہیں اور وہی تلخی میری رگ و جان میں گھل گئی ہے۔ خاموشی سے ٹپکنے والے آنسو دل کی زمین کو آج بھی سیراب کر رہے ہیں۔ ہاں اے مرے کشمیر ! میرے دل پہ ٹپکنے والے یہ آنسو ہی میرے لئے زندگی کی علامت ہیں۔ میں یہ آنسو جھلمل کرتے موتی بنا لوں گی اور میں ان موتیوں سے حسین مستقبل کی، تری آزادی کی مالا بناؤں گی میرے خیالوں میں یہ موتی تیرے ملن کی آس دلائیں گے آگہی و شعور کے پیارے پیارے ساتھی مجھے ایمان و ایقان کا نور عطا کریں گے۔ حوصلے کا پیغام دیں گے، اس موسم کا ان لمحوں کا جو ہم نے ساتھ گزارا ہے اور سوچ کی پیاری پیاری سکھیاں رنگ حنا دے جائینگی ان لمحوں کو، اس موسم کو جو ہم ساتھ گزاریں گے۔ اے میرے کشمیر!