قسط وار مارشل لا

689

عزت مآب عادل اعظم گلزار احمد کا ارشاد ہے کہ ادویات میں جعل سازی کرنے والوں کو سزائے موت دینا چاہیے۔ ہمارے بڑے 72برسوں سے یہی تو سوچ رہے ہیں کہ ایسا ہونا چاہیے ویسا ہونا چاہیے۔ یوں کرنا چاہیے توں کرنا چاہیے، مگر کوئی کچھ نہیں کرتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں اسلامی قانون پر بڑی جرأت مندی کے ساتھ عمل کیا جارہا ہے کہ غور طلب بات یہ ہے کہ اس معاملے میں ہماری عدالت عظمیٰ‘ عظمیٰ بی بی کیوں بنی بیٹھی ہے۔ دو مغربی ممالک میں چور کو سزا دینے کے بجائے حکومت مقامی انتظامیہ اور اہل محلہ کو چوری کا ذمے دار قرار دیا۔ اور اپنے فیصلے کو عمر لا کا نام دیا تھا۔ انہوں نے ارکان پارلیمنٹ سے رجوع کیا نہ ہی مجبوراً چوری کرنے والوں کو قصوروار قرار دیا۔ چین ہمارا دوست ملک ہے ہم اس کی دوستی میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے۔ مگر اس کی اچھی باتوں پر عمل نہیں کرتے۔ شنید ہے چین میں ملاوٹ کرنے والوں کو سزا موت دی جاتی ہے۔ اور اب تو گٹر کا ڈھکن چوری کرنے والوں کو بھی سزائے موت دینے پر غور کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری عدالت عظمیٰ قانون سازی کے لیے ایسے لوگوں کی محتاج کیوں ہے جو قانون کا تلفظ بھی ادا نہیں کرسکتے۔ چپراسی کے لیے بھی تعلیمی معیار مقرر ہے مگر رکن اسمبلی کے لیے کوئی معیار ہی مقرر نہیں۔ کہنے والے سچ ہی کہتے ہیں کہ ہمارے سیاست دان سیاست کی اے بی سی ڈی بھی نہیں جانتے اور اگر کوئی سیاست دان اے، بی، سی، ای، ڈی، ایف یاد بھی کرلے تو آگے یادداشت جواب دے جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے بعد جی، ایچ، کیو آجاتا ہے۔
میاں نواز شریف نے واپڈا کی من مانیوں سے تنگ آکر جی، ایچ، کیو سے التجا کی کہ واپڈا والے بہت تنگ کررہے ہیں ان سے بچائو۔ یوں واپڈا فوج کے حوالے کردیا گیا۔ ہم نے اس وقت لکھا تھا کہ حکومت نے مارشل لا کی راہ ہموار کردی ہے۔ اور جب پورا مارشل لا لگ جائے گا تو لفافے کے سہارے جینے والے سول حکومت کے خلاف سازش قرار دیں گے۔ ملک اور قوم کو اور تباہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس سال مارشل لا کی راہ ہموار کردی ہے انہیں بھی جی ایچ کیو یاد آگیا ہے جو حکومت ملک کا نظام چلانے کی اہلیت نہیں رکھتی اسے برسرے اقتدار رہنے کا کیا حق ہے اس کی حکومت بے جواز ہے۔ ویسے اپوزیشن خوش نہ ہو فوج آتی جاتی رہے گی مگر مارشل لا نہیں آئے گا۔ کیونکہ فوج کا تجربہ ناکام ہوچکا ہے اور کوئی باشعور وقت ضائع کرنا پسند نہیں کرتا۔ فوج کراچی کے نالے صاف کرے گی اپوزیشن کے نالوں کو کوئی توجہ نہیں دے گی۔ سول حکومت اپنی ناکامی کا اعتراف کر چکی ہے اس لیے فوج کو سماجی فاصلے پر سختی سے عمل کرنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ فوج سیاسی کورونا میں مبتلا ہوجائے۔ خدا جانے فوج کی سمجھ میں یہ بات کب آئے گی کہ سیاست دانوں کی ناکامی کو کامیابی سے ہم کنار کرنا عوام دشمنی ہے۔ قوم دوستی کا تقاضا ہے کہ نااہل لوگوں سے جان چھڑانے کے لیے پانچ سال کے لیے قومی حکومت تشکیل دی جائے اور حکومت ایسے لوگوں کے حوالے کی جائے جو ملک و قوم سے مخلص اور دیانت دار ہوں۔ کام کرنے کا سلیقہ جانتے ہوں۔ ملک میں ایسے مخلص اور دیانت دار لوگوں کی کمی نہیں جو ملک کی خدمت بغیر کسی لالچ کے انجام دینے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ٹیم تشکیل دی جائے بغیر کسی فائدے کے ملک و قوم کی خدمت سر انجام دے۔ اس کے بعد الیکشن کرائے جائیں اور الیکشن میں ایسے لوگوں کو امیدوار بنایا جائے جو ملک و قوم کی خدمت بغیر کسی فائدے کے انجام دیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ملک و قوم کو سر فراز کرسکتا ہے۔ کسی دل جلے کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں بددیانتی ایسا کام ہے جو ایمان داری سے کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں کسی کی دم اٹھانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے ادارے عوام کو صاف شفاف پانی دیں یا نہ دیں مگر اپنی دم ضرور صاف ستھری رکھتے ہیں۔