بجلی کے نرخوں میں موثر بہ ماضی اضافہ

801

ایک ایسے وقت میں جب لوگ بجلی کی بندش کے عذاب سے دوچار ہیں اور خصوصاًکراچی والے پریشانی بھگت رہے ہیں۔ نیپرا نے بجلی مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن کر دیا ہے۔ اس نوٹیفکیشن کے مطابق بجلی 2.6 روپے مہنگی ہوگی۔ عمومی طور پر صارفین پر 20 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ نیپرا نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں یہ قیمت نومبر 2019ء سے جون 2020ء تک کی مدت کے لیے بڑھائی ہے۔ اب صارفین سے اگست اور ستمبر کے بلوں میں وصولیاں ہوں گی۔ اگست میں صارفین ایک روپیہ 16 پیسے فی یونٹ اضافی ادا کریں گے جبکہ ستمبر میں 90 پیسے فی یونٹ اضافی ادا کریں گے۔ اس مقصد سکے لیے قانون بنایا گیا ہے اور اسے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا نام دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کون کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر فیول کی جو قیمتیں گری ہیں اور جتنی گری ہیں پاکستان کی حکومت کو اور خریداروں کو بھی اسی شرح سے فائدہ ہوا ہے۔ لیکن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس کے مطابق کمی نہیں ہوئی بلکہ الٹا اضافہ کر دیا گیا۔ یہ بات کوئی عوام کو بھی سمجھا دے کہ جو بل وہ نومبر 2019ء سے جون 2020ء تک ادا کر چکے وہ حساب تو بے باق ہو چکا۔ اب نیا بل کیوں؟ بہرحال قانون بنانے والے اور نافذ کرنے والے سب مل کر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں ہی کو منافع پہنچانے پر تلے ہوئے ہوں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ نومبر 2019ء سے جون 2020ء تک کے الیکٹرک یا دیگر تقسیم کار کمپنیوں اور واپڈا نے عوام کو جتنی بجلی نہیں دی اس کی ایڈجسٹمنٹ کا بھی کوئی قانون بنایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ عدالت عظمیٰ نے زاید وصولی کی رقوم واپس کرنے کا حکم دیا تھا کس کس کو رقم ملی اس کا بھی ذکر ہونا چاہیے۔ کسی بھی صورت میں بہرحال موثر بہ ماضی رقوم کا حصول یا بل وصول کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔ اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے یہ جائزہ کون لے گا کہ کس نے کب فیول استعمال کرکے بجلی تیار کی ہے کب پانی سے اور کب گیس سے بجلی تیار کی گئی ہے۔ ان سب کی ایڈجسٹمنٹ بھی تو کی جائے۔ گیس اور پیٹرولیم کمپنیوں کو پیسے ادا ہی نہیں ہوتے تو عوام سے کیوں لیے جاتے ہیں۔