قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ

114

آخرکار اْن لوگوں نے جو بری سے بری چالیں اْس مومن کے خلاف چلیں، اللہ نے اْن سب سے اْس کو بچا لیا، اور فرعون کے ساتھی خود بدترین عذاب کے پھیر میں آ گئے۔ دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں، اور جب قیامت کی گھڑی آ جائے گی تو حکم ہو گا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔ پھر ذرا خیال کرو اْس وقت کا جب یہ لوگ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوں گے دنیا میں جو لوگ کمزور تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ’’ہم تمہارے تابع تھے، اب کیا یہاں تم نار جہنم کی تکلیف کے کچھ حصے سے ہم کو بچا لو گے؟‘‘۔ (سورۃ غافر:45تا47)
سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ایک سال بارش نہیں ہوئی تو کچھ مسلمان جمعہ کے دن نبی اکرمؐ کے سامنے کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! بارش نہیں ہو رہی ہے، زمین سوکھ گئی ہے اور جانور ہلاک ہو گئے ہیں، اس وقت آسمان میں ہمیں بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا، آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو خوب دراز کیا اور پانی برسنے کے لیے دعا کی۔ ابھی ہم جمعہ کی نماز سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے (کہ بارش ہونے لگی) یہاں تک کہ اپنے گھر جانا مشکل ہو گیا، اور برابر دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی، جب اگلا جمعہ آیا تو لوگ کہنے لگے: اللہ کے رسول! گھر گر گئے اور سوار محبوس ہو کر رہ گئے، تو رسول اللہ ابن آدم کے جلد اکتا جانے پر مسکرائے، پھر آپ نے یوں دعا کی: ’’اللہم حوالینا ولا علینا‘‘ اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا اور (اب) ہم پر نہ برسا۔ تو مدینہ سے بادل چھٹ گئے۔ (سنن نسائی، بخاری)